Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

انفرادی شناخت کا مسئلہ، سیاست اور انصافیے

دوسرے اور بہت سوں کی طرح، میں بھی اس مسئلے پر سوچتا رہا ہوں کہ جیالے، نونیے، انصافیے، وغیرہ، کیسے اور کیونکر جنم لیتے ہیں۔

چکبست برج نرائن کے الفاظ میں، ان کے ظہور میں عناصر کی کیا ترکیب کام میں آتی ہے، اور ان کے اجزا پریشاں کیسے ہوتے ہیں۔ ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔

یا پھر اقبال کے انداز میں، یہ کونسے ’’چار‘‘ یا کم یا زیادہ عناصر ہیں، جو ہوں تو اس نوع کی ’’نوع‘‘ بنتی ہے۔

یہاں ابتدا ہی میں یہ بات سامنے رکھ دینا مناسب ہو گا کہ پہلے جو سیاسی انواع پیدا ہوتی رہی ہیں، جیسا کہ جیالے، پِپلیے، متوالے، نونیے، وغیرہ، اب گذشتہ دس بارہ برسوں میں جو ایک نئی ’’نوع‘‘ سامنے آئی ہے، اور جسے متعدد اور نام بھی دیے گئے ہیں، وہ نوعی طور پر ان تمام انواع سے مختلف ہے، جو ماضی میں جنم لیتی رہی ہیں۔

یہ نوع عمران خان کے پیروکار ہیں۔ اور یہ ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، پیپلز پارٹی، نواز شریف اور ن لیگ کے پیروکاروں سے نوعی طور پر بالکل ایک جدا نوع ہیں۔

یہ بھی عیاں رہے کہ پہلے جو انواع تھیں اور جن کی باقیات تاحال وجود رکھتی ہیں، ان کے ساتھ کچھ نہ کچھ گفتگوئی اور فکری لین دین ممکن تھا۔ مگر اب جو یہ نئی نوع وجود میں آئی ہے، اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا گفتگوئی اور فکری لین دین قطعا ممکن نہیں۔

یہ نئی سیاسی نوع، اخلاقیات، معاشرتی روایات، عقلِ سلیم (کامن سینس)، منطق، عقلیت، وغیرہ، جیسی چیزوں سے قطعاً نابلد ہے، اور یہ بھی کہ یہ نوع ان میں سے کسی چیز کو شمہ بھر خاطر میں نہیں لاتی۔ بلکہ اس کے نزدیک یہ چیزیں ایک رکاوٹ کا درجہ رکھتی ہیں، جسے ہٹائے بغیر راستہ صاف نہیں ہو سکتا۔ اور اس کا قافلہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔

مزید یہ بھی کہ یہ نوع کسی قسم کے آدابِ گفتگو کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی۔

اب ایسے لوگوں کے ساتھ کیا کسی مکالمے، مذاکرے، مناظرے، مباحثے، یا گفتگو کا امکان باقی رہ جاتا ہے؟ بالکل نہیں۔

لیکن ان کے ذہن اور ذہنیت کو کھولنے، دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے، اور کی جانی چاہیے۔

میری سعی کا بھی یہی مقصد ہے۔

ایک مرتبہ پھر آگے بڑھنے سے قبل، یہ بات صاف کر دینا ضروری ہے کہ یہ کوئی اجتماعی شناخت کا مسئلہ نہیں۔ نہ ہی قومی شناخت کا مسئلہ ہے۔ نہ ہی کسی قسم کی ثقافتی، لسانی، یا نسلی، وغیرہ، شناخت کا معاملہ ہے۔ یہ عیاں طور پر انفرادی شناخت کا مسئلہ ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس ’’انصافی نوع‘‘ کو ایک ’’کلٹ‘‘ (یعنی مسلک) کہہ کر اس مسئلے کو ٹالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے، جب کسی کی غلطیوں اور ’’جرائم‘‘ کو یہ کہہ کر اس سے درگزر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ تو ہے ہی نادان، یا پاگل، یا جھلا، یا بے وقوف، یا کچھ اور۔ آیا کسی کو اس طرح کی صفات سے متصف کر دینے سے اس کی غلطیاں اور جرائم، دُھل جاتے ہیں۔ بالکل نہیں۔

اس ضمن میں ایک اور مثال یاد آتی ہے۔ پپلیوں یا جیالوں کو بھی ایک ’’فرقے‘‘ کا نام دے کر ٹالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جہاں تک میری یاداشت کا تعلق ہے، میں نے یہ کام کرتے صحافی نصرت جاوید کو پڑھا۔ مراد یہ کہ بھئی یہ تو ایک فرقہ ہے، انھیں معاف رکھو۔

تو کیا کسی کو ایک کلٹ یا کسی اور کو ایک فرقہ کہہ کر ٹال دینا چاہیے۔ انھیں معاف کر دینا چاہیے۔ انھیں دیکھنے، کھولنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

یا انھیں ایک کلٹ یا ایک فرقے کا نام دے دینے سے انھیں سمجھ لینا ممکن ہو جاتا ہے۔ یا یوں ان کی تفہیم مکمل ہو گئی۔ مجھے اس اندازِ فکر سے شدید اختلاف ہے۔

میرے اختلاف کا ایک سبب یہ ہے کہ جہاں تک پپلیوں اور جیالوں کا تعلق ہے، وہ بھی تشدد کی سرحدوں کے قریب تر پہنچ چکے تھے، مگر وسیع سطح پر معاشرے کے لیے ناقابلِ قبول نہیں بنے تھے۔ پر جہاں تک انصافیوں کا تعلق ہے، یہ تو مجسم تشدد بن چکے ہیں۔ ان کی ہر بات بغض و عناد، نفرت و انتقام، تحقیر و حقارت اور تشدد سے مملو ہے۔ یہ ہیں ہی تشدد کے پُتلے۔

عیاں رہے کہ تشدد، انسانی تہذیب کی نفی ہے۔ یعنی جو فرد یا گروہ یا کلٹ یا فرقہ، تشدد کو اپنا لیتا ہے، یا تشدد پر اُتر آتا ہے، وہ انسانی نوع سے ایک مختلف چیز بن جاتا ہے۔ یہ انسانی معاشرے کا دشمن بن جاتا ہے۔

میں اتنے قطعی فیصلے پر کیونکر پہنچا ہوں، اس کا ایک سبب تو تشدد کا معاملہ ہے، جو اس نئی نوع کا عیاں اور پوشیدہ ہتھیار ہے۔

مزید یہ کہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، یہ نوع ان تمام چیزوں کو نیست و نابود کر دینا چاہتی ہے، بلکہ کر دیتی ہے، کیونکہ یہ نوع اسی صورت میں پنپ سکتی ہے، جب یہ ان تمام چیزوں کو تج دے، تہس نہس کر دے، جن کے ذریعے اور جن کی بنیاد پر اور جن کی مدد سے، انسانی معاشرے اور انسانی تہذیب کی پیدائش اور ارتقا ممکن ہوا ہے۔

یعنی معاشرتی روایات، اخلاقیات، عقلِ سلیم (کامن سینس)، منطق، عقلیت، وغیرہ، کو کلی طور پر رد کر دینا۔

مکالمے، مذاکرے، مناظرے، مباحثے، یا گفتگو کے امکان کو سرے سے مٹا دینا۔

اور پھر سب سے بڑھ کر، آدابِ گفتگو کو ٹھوکروں میں اڑا دینا۔

یعنی جب لوگوں کا ایک گروہ، خود معاشرے کا دشمن بن جاتا ہے، یعنی وہ معاشرہ، جو انسانی تہذیب کی دین ہے، اس کی جڑیں کاٹنے لگتا ہے، تو یہ گروہ خود معاشرے کا حصہ نہیں رہتا۔ بلکہ یہ ایک ایسا پھوڑا بن جاتا ہے، جس کا زہر تمام جسم میں پھیل سکتا ہے، اور اس کا حل جراحی رہ جاتا ہے۔ تاکہ اسے کاٹ کر جسم کو اس زہر بچایا جائے۔

ایک مرتبہ پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی قسم کا فیصلہ ہے۔ مجھے خود اس بات کا احساس ہے۔ مگر حقیقتاً ایسا ہو رہا ہے، اور لوگ ایسا کر رہے ہیں۔ لوگوں نے اس نوع کے ارکان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا ہے۔ ان سے قطعِ تعلق کر رہے ہیں۔ ان سے میل جول بند کر دیا ہے۔ ان کے ساتھ گفتگو ختم کر دی ہے۔ انھیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ اور اس ’’بائیکاٹ‘‘ کے ضمن میں یہ چیز نمایاں ہے کہ جن لوگوں سے قطع تعلق کیا گیا ہے، ان میں دوست احباب تو شامل ہیں ہی، ان میں لوگوں کے عزیز و اقارب بھی داخل ہیں اور خونی رشتے دار بھی۔

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ ایسے گروہ کیونکر جنم لیتے ہیں۔ ایسے ذہن یا ایسی ذہنیت کیونکر تشکیل پاتی ہے۔

اس سوال کا جواب انسانیات دان، نفسیات دان، سماجیات دان، وغیرہ، زیادہ بہتر دے سکتے ہیں۔ بلکہ یہ ان کا ہی شعبہ اور کام ہے۔ میں یہاں صرف چند اشارے کرنا چاہتا ہوں، جو میری فہم کے مطابق ایسے ذہن یا ایسی ذہنیت کی تشکیل میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کرتے ہیں، یا ادا کرتے ہوں گے۔

بلکہ مجھے یہاں پاکستان کے نفسیات دانوں سے یہ گلہ ہے کہ انھوں نے ان (سیاسی) معاملات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، جو سیاسی ہوتے ہوئے، نفسیاتی زیادہ ہیں۔ ویسے ان سے یہ پوچھنا بھی مناسب ہو گا کہ انھوں نے کن (پاکستانی) معاملات اور مسائل کی طرف توجہ مبذول کی۔ اور آیا وہ کوئی مقامی مطالعات سامنے لا سکے۔

میری فہم یہ کہتی ہے کہ یہ انفرادی شناخت کا مسئلہ ہے، جو ایک ایسے معاشرے میں جنم لیتا ہے، جہاں جبر و تشدد کی مختلف صورتیں حاوی و غالب رہی ہوں، اور ہوں۔ جہاں ایک یا کسی دوسری قسم کی شناخت کو لوگوں اور ہر نئی نسل پر بزور مسلط و نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ جہاں ماحول گھٹن کا شکار ہو۔ جہاں بنیادی حقوق اور آزادیوں کا فقدان ہو۔ جہاں ایک طرف بنیادی حقوق اور آزادیوں کا فقدان ہو، جبکہ دوسری طرف اشرافیہ کے طبقات کو ہر طرح کی آزادیاں دستیاب ہوں۔ جہاں ریاست، حکومت، عدالت اور قانون، اشرافی طبقات کے گھر کی لونڈی بنے ہوں، اور عام شہری اپنے جان و مال کے تحفظ اور انصاف کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوں۔

مختصراً یہ کہ ایک ایسا معاشرہ، جہاں ریاست، ریاستی مشینری، حکومت، اور عدالت سمیت خود وہ معاشرہ بھی لاتعداد تضادات کا شکار ہو، وہاں انفردی شناخت کا اس نوع کا مسئلہ جنم لیتا ہے۔

بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جہاں ریاست اور معاشرہ دونوں مجسم تضاد کی صورت اختیار کر چکے ہوں، وہاں انفرادی شناخت کھو جاتی ہے، ایک گمشدہ چیز بن جاتی ہے، اور یوں وہاں، انفرادی شناخت کی تلاش کا مسئلہ کئی صورتوں میں سامنے آ سکتا ہے اور آتا ہے، جیسا کہ پاکستان کی مثال سے ظاہر ہے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ تضادات سے بھرے ایسے معاشرے اور ماحول میں انفرادی شناخت کا مسئلہ کئی قسم کی صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔

جہاں تک میری فہم کا تعلق ہے، ہر فرد جب بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے، تو اسے ایک پہچان اور شناخت چاہیے ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہ وہ کون ہے۔ وہ کیسے جانا جائے۔ اسے کیا سمجھا جائے۔ اسے کیسے پہچانا جائے۔ اسے کوئی نام ملے۔ اسے کوئی پہچان ملے۔ وہ دوسرے لوگوں سے مختلف کیسے ہو۔ وہ دوسرے لوگوں سے مختلف کیسے بنے۔ وہ دوسرے لوگوں سے نمایاں کس طرح ہو۔ دوسرے لوگ اسے کس طرح متمیز کریں۔ دوسرے لوگ اسے کس طرح مختلف سمجھیں۔ وہ دوستوں اور دشمنوں کی تمیز کیسے کرے۔ کون اس کے دوست ہیں، اور کون اس کے دشمن۔ وہ کن کا دوست ہے، اور کن کا دشمن۔ اس کا کن لوگوں کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے، کن کے ساتھ نہیں۔ کن کے ساتھ اسے کوئی سروکار نہیں رکھنا۔ کن کے ساتھ اسے سروکار رکھنا ہے۔ وہ دوسروں سے علاحدہ کیونکر متصور ہو۔ اور صرف علاحدہ ہی نہیں، بلکہ دوسروں کے مقابلے میں کس طرح برتر متصور ہو۔ کیا چیز ہے، جو اسے دوسرے لوگوں سے متمیز کرے گی۔ کیا چیز ہے، جو اسے دوسرے لوگوں سے برتر بنائے گی۔ کیا چیز ہے، جو اسے دوسرے لوگوں پر حاوی ہونے میں مدد دے گی۔ کیا چیز ہے، جو دوسرے لوگوں کو کمتر بنائے گی۔ کون غلط ہے، کون صحیح۔ کونسی چیز غلط ہے، کونسی چیز صحیح۔ کیا چیز ہے، جو کسی کو غلط اور کسی کو صحیح بناتی ہے۔ وہ صحیح کیسے بن سکتا ہے۔ دوسرے غلط کیسے بنتے ہیں۔ صحیح کو غلط کیسے بنانا ہے، اور غلط کو صحیح کیسے۔ نفرت کس سے کرنی ہے، اور کس سے نہیں۔ بغض و عناد کس کے خلاف رکھنا ہے، اور کس کے خلاف نہیں۔ انتقام کس سے لینا ہے، اور کیسے لینا ہے۔ منتقم مزاج کیسے بننا ہے۔ وغیرہم۔

یہ گنتی نامکمل ہے۔ اس میں متعدد متماثل اور متوافق اور متطابق چیزیں جمع کی جا سکتی ہیں۔ کیونکہ حقیقت نہایت منفرد اور پیچیدہ ہوتی ہے، اور یوں اس کی نئی سے نئی شکلیں اور صورتیں وجود میں آتی رہتی ہیں۔

ہاں اس فہرست پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اس میں مثبت اور منفی دونوں طرح کی چیزیں شامل کر دی گئی ہیں۔ یہ درست ہے۔ میری کوشش یہ ہے کہ غیرجانبدارانہ انداز میں قریب قریب ان تمام چیزوں کی نشاندہی ہو جائے، ایک بالغ ہوئے فرد کو، پاکستان جیسے تضادات سے بھرپور معاشرے میں، جن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور پڑ سکتا ہے۔ اور اس ضمن میں خود میرا مشاہدہ میرا رہنما ہے۔ اپنے ان دوستوں، عزیزوں، وغیرہ، میں، جن کا تعلق اور وابستگی عمران خان اور پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ ہے، جو کچھ میں نے دیکھا، محسوس کیا، سمجھ میں آیا، یہاں میں نے ان کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ انفرادی شناخت کے مسئلے کا حل سیاسی شناخت میں نکلا۔ مگر ایسا کیوں ہوا۔ میری رائے میں، ان وجوہات کی بنا پر، جن کا ذکر اوپر معاشرے اور ماحول کے ضمن میں ہوا، اور یہاں پاکستان میں مختلف اقسام کی شناختوں کو لوگوں پر بزور مسلط اور نافذ کرنے کی جو کوششیں کی گئیں، بیشتر ان کے نتیجے میں انفرادی شناخت کے مسئلے کا حل سیاسی شناخت کی صورت میں نکلا یا نکالا گیا۔ یعنی کسی نہ کسی طرح انفرادی شناخت، سیاسی شناخت کے ساتھ نتھی ہو گئی۔

انفرادی شناخت کے سیاسی شناخت میں ڈھل جانے کا ایک اور بڑا سبب یہ بھی بنا کہ پاکستان میں ہر چیز کو سیاست کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ یہاں ہر چیز سیاسی ہو گئی۔ ہر بات کو سیاست کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ لہٰذا، انفرادی شناخت کو بھی اگر کہیں ’’پناہ‘‘ ملی، تو سیاسی شناخت کی گپھا میں ملی۔

ہوا یہ کہ ریاست اور حکومت کے ہر ادارے اور ہر عہدے سے لے کر معاشرے کے تمام اداروں تک کو، جن میں تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں، ان سمیت ہر علم و فن کو، اور پھر افراد کے باہمی تعلقات تک کو سیاست کے رنگ میں رنگ دیا گیا۔ سیاسی مقاصد کا تابع بنا دیا گیا۔

ایسے میں انفرادی شناخت کا مسئلہ کیونکر غیرسیاسی رہ سکتا تھا۔

اوپر ریاست اور معاشرے سے متعلق جو قضایا سامنے رکھے گئے ہیں، ان کے ضمن میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ شناخت کے جن معاملات و مسائل کی نامکمل فہرست ترتیب دینے کی کوشش کی گئی، وہ بالعموم پڑھے لکھے تعلیم یافتہ طبقات کے لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ بیشتر ایسے لوگوں کو ان معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو معاشی و سماجی جدوجہد کے بوجھ سے قدرے آزاد ہوتے ہیں۔ مزید یہ بھی کہ یہ طبقات، مذہب سے بھی نسبتاً بیگانہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ عمران خان کے ایک جلسے میں سامنے آنے والا ’’مذہبی ٹچ‘‘ کا معاملہ ثابت کرتا ہے۔

اور جہاں تک ان طبقات کا تعلق ہے، جو معاشی و سماجی جدوجہد کے بوجھ سے دوہرے ہوئے ہوتے ہیں، یہ نہیں کہ انھیں انفرادی شناخت کا مسئلہ درپیش ہی نہیں ہوتا، بالکل ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی سوچنے سمجھنے والے اور شعور رکھنے والے فرد ہوتے ہیں۔ مگر ان کی انفرادی شناخت کا مسئلہ بیشتر مذہبی وابستگی سے حل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ مذہبی گروہوں کے پیروکاروں کی ترکیب سے عیاں ہے۔

آخر میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ یہ جو پپلیوں، یا نونیوں، یا اب انصافیوں کی انواع وجود میں آتی ہیں، ایسا نہیں کہ یہ خلا سے ایک دم نازل ہو جاتی ہوں۔ بلکہ جیسا کہ اس قسم کے بلکہ ہر قسم کے رجحانات ہر معاشرے میں ہر وقت موجود رہتے ہیں، اور جب انھیں سازگار ماحول اور سازگار عوامل میسر آ جائیں، تو یہ پنپنے اور پھلنے پھولنے لگتے ہیں۔ اور پھل دار درخت بن جاتے ہیں۔

پاکستان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہاں بھی یہ رجحانات مختلف صورتوں میں موجود رہے ہیں۔ اور جب انھیں سازگار ماحول اور سازگار عوامل میسر آئے، یہ پھلنے پھولنے لگے۔

اوپر یہ اشارہ بھی کیا گیا کہ کس طرح کے معاشرے اور ماحول میں انفرادی شناخت کا مسئلہ کیا کیا صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔ اور یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ انفرادی شناخت کا مسئلہ تو ہر باشعور فرد کا مسئلہ ہوتا ہے۔ بلکہ یہ انفرادی شناخت ہر فرد کے لیے ایک ناگزیر ضرورت کا مرتبہ رکھتی ہے۔ مگر اسے کیسا ماحول میسر آتا ہے، اس کے ظہور پانے والی صورتوں کا انحصار اس ماحول پر ہوتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ بالعموم یہ ماحول اور معاشرہ ہوتا ہے، جو انفرادی شناخت کے مسئلے کو منفی صورتیں اختیار کرنے کے مواقع مہیا کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا۔

ایک آخری بات یہ کہ سیاسی اقلیم میں جو یہ ایک انصافی نوع وجود میں آئی، بعض اوقات یوں ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں جن متعدد خصوصیات کا انتقال (یہاں اس انتقال سے نفسیات کی وہ اصطلاح مراد ہے، جسے ٹرانفیرینس کہا جاتا ہے، اور جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کے بارے میں ایک فرد کے احساسات کا دوسرے فرد میں متنقل ہو جانا۔) ہوا، وہ مذہبی اقلیم اور طاقت کی اقلیم سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی یہ رویے اور یہ رجحانات ان دونوں اقالیم میں پہلے سے کارفرما تھے اور کسی نہ کسی طرح سیاسی اقلیم میں منتقل ہو گئے۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments