Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

بجٹ یا حکومت کا لاگت ۔ فائدہ (کاسٹ ۔ بینیفٹ) تجزیہ

ویسے میں ہر برس بجٹ پر لکھتا بھی نہیں۔ کوئی فائدہ بھی نہیں۔ یکساں چیزیں بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہوتی ہیں، وہ ویسے ہی بجٹ پیش کرتی ہیں، جیسے بجٹوں پر وہ خود تنقید کرتی ہیں، جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں۔ اور اپوزیشن بھی بجٹوں پر ویسی ہی تنقید کرتی ہے، جیسے بجٹ وہ خود پیش کرتی رہی ہیں، یا کریں گی، جب وہ حکومت میں ہوتی ہیں یا ہوں گی۔

باایں سبب، اس مرتبہ بھی بجٹ پر کچھ لکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ مگر عزیز دوست قادر بخش صاحب نے اس مالی سال کے بجٹ پر میری رائے مانگ لی اور  یوں مجھے لکھنے کا بہانہ مل گیا۔

روایتی قسم کا تبصرہ کرنے کے بجائے، میری کوشش ہے کہ کچھ سیدھی سیدھی باتیں کی جائیں۔

بجٹ پر نظر ڈالنے سے قبل دو باتیں بیان کر دینا ضروری ہے۔

اول یہ کہ ریاست یا حکومت کوئی دولت تخلیق نہیں کرتی۔ دولت لوگ تخلیق کرتے ہیں، یعنی شہری۔ حکومت کی آمدن یا تو لوگوں کی جیب میں سے نکلوائے ٹیکسوں پر مشتمل ہوتی ہے، یا ملکی و غیرملکی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں پر۔

دوم یہ کہ حکومت جو قرضے لیتی ہے، ملکی اور غیرملکی دونوں، ان قرضوں کی ادائیگی لوگوں کی جیب میں سے نکلوائے ٹیکسوں سے ہی ہوتی ہے۔

اب بجٹ کے ضمن میں دیکھنے کی کچھ باتیں۔

پہلی بات یہ کہ (مجوزہ) بجٹ کے مطابق حکومت کی آمدن کیسے اور کہاں سے ہو گی، اور کتنی ہو گی۔

دوسری بات یہ کہ بجٹ میں یا بجٹ کے ذریعے حکومت معاشرے یعنی لوگوں کی جیب میں سے کتنی رقم نکلوانا چاہتی ہے۔

تیسری بات یہ کہ حکومت، بجٹ یا بجٹ کے ذریعے معاشرے یعنی لوگوں کو لوٹا کیا رہی ہے اور کس صورت میں لوٹا رہی ہے۔

حکومت کی طرف سے لوگوں کی جیب میں سے جو ٹیکس نکلوائے جاتے ہیں، انھیں لوٹانے کی ایک بڑی صورت پی ایس ڈی پی کہلاتی ہے، یعنی پبلک سیکٹر ڈویلپمینٹ پروگرام۔ یعنی پبلک کے لیے ترقیاتی منصوبے۔ اس ضمن میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ان منصوبوں کی نوعیت کیا ہے۔ آیا یہ منصوبے شہریوں کی اکثریت کو فائدہ پہنچائیں گے یا نہیں۔ اور یہ بھی کہ آیا یہ منصوبے طویل مدتی فائدہ پہنچائیں گے یا نہیں۔

چوتھی بات یہ کہ حکومت بجٹ میں یا بجٹ کے ذریعے لوگوں کو لوٹانے کے علاوہ، ان کی جیب سے نکلوائے ٹیکسوں کو کہاں کہاں خرچ کر رہی ہے۔

پانچویں بات یہ کہ خود ریاست اور حکومت کا حجم کتنا ہے اور انھیں پالنے کے لیے کتنا بجٹ رکھا گیا ہے۔

اب موجودہ مالی سال کا میزانیہ:

حکومت کو ڈائریکٹ (بلاواسطہ) ٹیکسوں سے ہونے والی متوقع آمدن: 3790 ارب روپے

یعنی یہ بلاواسطہ ٹیکس 37 فیصد ہیں۔

حکومت کو اِن ڈائریکٹ (بالوسطہ) ٹیکسوں سے ہونے والی متوقع آمدن: 4431 ارب روپے

یعنی بالواسطہ ٹیکس 63 فیصد ہیں۔

واضح رہے کہ بالواسطہ (اِن ڈائریکٹ) ٹیکس وہ ٹیکس ہوتے ہیں، جو ہر کسی کو دینے پڑتے ہیں، کیونکہ یہ اشیا پر لگائے جاتے ہیں۔

جبکہ بلاواسطہ (ڈائریکٹ) ٹیکس لوگوں کی آمدنی پر عائد کیے جاتے ہیں۔

مراد یہ کہ اچھی حکمرانی کا ایک لازمی جزو یہ ہوتا ہے کہ بالواسطہ ٹیکس کی شرح اور حجم کم سے کم ہونی چاہیے۔ جبکہ یہاں ان کا حجم 63 فیصد ہے۔ اور بلاوسطہ ٹیکسوں کا حجم 37 فیصد ہے۔ یعنی تقریباً دگنا۔

حکومت کی متوقع کُل ٹیکس آمدن 7004 ارب روپے ہے۔

یعنی لوگوں کی جیبوں میں سے ٹیکسوں کی صورت میں سات ہزار چار سو ارب روپے نکالے جائیں گے۔

حکومت کی غیرٹیکس آمدن کا تخمینہ 2000 ارب روپے ہے۔

اس میں مختلف لیویز، فیسیں، پراپرٹی سے ہونے والی آمدنی، وغیرہ، شامل ہیں۔ یعنی یہ غیرٹیکس آمدن بھی کسی نہ کسی صورت لوگوں کی جیب سے ہی نکلے گی۔

یوں حکومت کی کل متوقع آمدن 9004 ارب روپے ہے۔

جہاں تک ان اخراجات کا تعلق ہے، جو شہریوں سے لیے گئے ٹیکس میں سے شہریوں پر خرچ کیے جائیں گے، تو وہ اس طرح ہیں:

وفاقی پی ایس ڈی پی (a): 727 ارب روپے

ہنگامی حالات کے لیے فنڈز (b): 100 ارب روپے

کل سبڈی (اعانتیں) (c): 699 ارب روپے

جبکہ (1) سول انتظامیہ کے اخراجات کا تخمینہ ہے، 550 ارب روپے۔

اور (2) دفاعی اخراجات ہیں، 1527 ارب روپے۔

اور (3) سول اور فوج کی پیشن پر 530 ارب روپے اٹھنے کا تخمینہ ہے۔

اور (4) سود کی مد میں جو ادائیگیاں کی جائیں گی، وہ ہیں 3950 ارب روپے۔

مختصر یہ کہ حکومت اس مالی سال میں لوگوں سے جو ٹیکس اور غیرٹیکس ریوینیو سمیٹے گی، وہ 9004 ارب روپے ہے۔ جبکہ اس میں سے مختلف صورتوں میں لوگوں کو جو کچھ لوٹایا (a+b+c) جائے گا، وہ 1526 ارب روپے ہے۔ یعنی حکومت لوگوں سے ٹیکسوں کی صورت میں جو کچھ نکلواتی ہے، اس کا صرف 17 فیصد  کے قریب لوگوں پر خرچ کرتی ہے۔

جبکہ حکومت کو چلانے کے لیے کل اخراجات (1+2+3+4) کا تخمینہ تقریباً 6557 ارب روپے ہے۔

مزید یہ بات بھی نظر میں رہنی چاہیے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت تعلیم، صحت، وغیرہ، صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، اور یہ بھی کہ وفاقی حکومت جو کل ٹیکس ریوینیو جمع کرتی ہے، اس کا معتد بہ حصہ صوبوں میں تقسیم ہو جاتا ہے، لہٰذا، صوبائی میزانیوں کو دیکھنا بھی ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں لوگوں کی جیبوں میں سے کتنا پیسہ نکلواتی ہیں، اور اس میں سے انھیں کتنا پیسہ انھیں لوٹاتی ہیں اور کس صورت میں۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Qadar Baloch
Qadar Baloch
1 year ago

Sor thanks alot for taking this intellectual but time consuming exercise. It will educate many like me. Stay blessed.