ریلیف کا لفظ جیسے کہ ایک تکیہٴ کلام بن گیا ہے۔ خاص طور پر دانشوروں کا تکیہٴ کلام۔ اور یہ دانشور کون ہیں۔ بھئی پاکستان میں اس وقت دانشور وہ چنیدہ لوگ ہیں، جو صحافی ہیں، جو ٹی وی چینلوں اور یوٹیوب پر گفتگو اور بحث کر رہے ہیں۔ اور جو اخبارات میں کالم اور مضامین لکھ رہے ہیں۔ اور یہ لوگ بلا سوچے سمجھے ’’غریبوں‘‘ کے لیے، عام شہریوں کے لیے، حکومت سے ریلیف کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
آج کل کیونکہ وفاقی حکومت نے قومی اسیمبلی میں مجوزہ بجٹ پیش کیا ہوا ہے، اور صوبائی حکومتوں کے مجوزہ بجٹ بھی سامنے آ رہے ہیں، لہذا، ریلیف کی تکرار اور شور بہت زیادہ ہو گیا ہے۔
اسی طرح، جب کوئی انصاف کی طلب میں عدالت کا دروازہ کھڑکھڑاتا ہے، تو یہی تکرار شروع ہو جاتی ہے۔ یعنی یہ کہ عدالت ریلیف دے۔ یا پھر جب عدالت لگ چکتی ہے اور فیصلہ سنا دیتی ہے، تو پھر یہ گفتگو شروع ہو جاتی ہے، عدالت نے ریلیف دے دیا۔ یا یہ کہ عدالت نے ریلیف نہیں دیا۔
سوال یہ ہے کہ جو شخص عدالت انصاف لینے گیا، اسے انصاف ملنا چاہیے، یا ریلیف۔ عدالت کون ہے اسے ریلیف دینے والی۔ مراد یہ کہ قانون کی رو سے عدالت انصاف دینے کی پابند ہے۔ جبکہ جہاں تک ریلیف کا تعلق ہے، تو یہ عدالت کی صوابدید پر منحصر ہے۔
عیاں ہے کہ آج لوگ انصاف لینے کسی بادشاہ کے دربار میں نہیں جاتے!
قطع نظر اس سے کہ ریلیف کا کیا مطلب و مفہوم ہے، آج کے دانشور اس کی تکرار کیے جا رہے ہیں۔ ریلیف کا تعلق سیاست سے بھی جوڑ دیا گیا ہے، معاشیات سے بھی، اور انصافیات سے بھی۔
انگریزی کے اس لفظ کے دو مفہوم ہیں۔ ایک تو یہ کہ تشویش اور اضطراب سے رہائی کے نتیجے میں ملنے والا آسودگی اور اعتماد کا احساس۔ دوسرا مطلب ہے ان لوگوں کے لیے مالی یا عملی امداد، جنھیں اس کی خصوصی ضرورت ہے اور جو مشکل میں ہیں۔
تاہم، زیادہ بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب ریلیف کا لفظ سیاست اور معیشت کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا ہے۔
بلکہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ریاستی معاشیات میں یہ ریلیف کی معیشت ایک نیا موضوع اور ایک نیا اضافہ ہے۔ جس طرح، ریاستی معیشت دان ہر وقت حکومت کو شہریوں کی جیب میں سے ٹیکس نکلوانے کے نئے سے نئے گوشے اور طریقے بتاتے ہیں، اسی طرح، وہ ’’حکومت لوگوں (جیسے کہ ’’غریب،‘‘ اور ’’متوسط طبقے‘‘) کو ریلیف دے‘‘ کے وکیل بن کر بھی سامنے آتے ہیں۔ یہ ایک نہایت نفیس قسم کی نوسربازی ہے۔
اپنے کتابچے، ’’ریاستی معیشت اور شہری معیشت: علمِ معاشیات پر ریاست کے تسلط کی مختصر روداد‘‘ میں، میں نے جو استدلال اختیار کیا تھا، اس کے لیے مزید شواہد دستیاب ہو رہے ہیں۔ یعنی ریلیف کی معیشت، ریاستی معیشت ہی کی ایک نئی صورت کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔
اور ریاستی معیشت کو پوری ایک ریلیف کی سیاست میں ڈھالا جا رہا ہے۔ آج کے دانشور اس کے داعی ہیں۔
جبکہ دیکھا جائے تو ریاست یا حکومت کوئی دولت (یعنی اشیا و خدمات) تخلیق نہیں کرتیں۔ دولت شہری تخلیق کرتے ہیں۔ اور ریاست و حکومت ان کی آمدنی سے جائز و ناجائز ٹیکس پر پلتی ہیں۔
اس کے علاوہ، ریاست و حکومت لوگوں کو جو خدمات مہیا کرتی ہیں، اس کے لیے ان کی جیب سے اچھی بھلی رقم فیسوں، جیسے کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، وغیرہ، کی صورت میں نچوڑتی ہیں۔ اسی طرح، ریاست و حکومت جب لوگوں کو کوئی اشیا مہیا کرتی ہیں، جیسے کہ بجلی، گیس، پانی، وغیرہ، تو اس کی من مانی قیمت وصول کرتی ہیں۔
ان حقائق کے پیشِ نظر، ریلیف کا کیا مفہوم بنتا ہے۔
آج کے دانشوروں نے کبھی اس معاملے پر سوچنا گوارا کیا ہے۔
یعنی ریاست و حکومت، شہریوں کو کیا ریلیف دے سکتی ہیں؟
ہاں، ریاست و حکومت شہریوں کو ریلیف دیتی ہیں۔ مگر یوں کہ ان سے جو ٹیکس اور فیسیں نچوڑی جاتی ہیں، ان میں کچھ مہلت دے دی جائے، تو اج کے دانشور اسے ریلیف کہتے ہیں۔ یا جب شہریوں پر عائد ٹیکسوں میں کم اضافہ کیا جائے، تو آج کے دانشور اسے ریلیف کہتے ہیں۔ جب پیٹرول، بجلی یا گیس، وغیرہ، پر پچاس کے بجائے، تیس روپے بڑھائے جائیں، تو آج کے دانشور اسے ریلیف کہتے ہیں۔
کیسی پریشان خیالی ہے کہ جن کے پیسے کے بل پر ریاست و حکومت کا پورا ڈھانچہ زندہ ہے اور چل پھر رہا ہے، دانشور ان کے لیے ریلیف مانگ رہے ہیں، اور پھر انھی لوگوں کو یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ حکومت نے ان پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔
اشرافیہ ہمیشہ احسان کرتی ہے، چاہے یہ سیاسی اشرافیہ ہو، عسکری اشرافیہ، یا دانشور اشرافیہ۔
مگر یہ پریشان خیالی نہیں۔ یہ خام خیالی ہے۔ بلکہ فریب دہی ہے۔ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کے دانشور کس کے ساتھ ہیں۔ کس کے نمائندے ہیں۔
اپنی کتاب، ’’پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج‘‘ میں نے دو بڑے مجرموں کا ذکر کیا ہے، جو پاکستان کے شہریوں کے مجرم ہیں۔ بڑے مجرم، سیاست دان ہیں۔ اور ملوث مجرم، دانشور ہیں۔ یعنی ٹی وی، اخبار، صحافی، وغیرہ۔
مختصر یہ کہ ریلیف کی معیشت اور سیاست نظر کا دھوکہ ہے۔ یہ نظر کا دھوکہ رچایا جاتا ہے۔ سیاست دان یہ دھوکہ رچاتے ہیں، اور نظر پر پردہ ڈالتے ہیں دانشور۔ اور یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے کوئی رہزن کہے کہ ہاں میں مسافر کو یہ ریلیف دیتا ہوں کہ کچھ زادِ راہ اس کے پاس چھوڑ دیتا ہوں، کہ وہ اپنی منزل پر زندہ پہنچ سکے۔