Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

‘‘تیسری جنگِ عظیم کیسے ٹلی’’

فطرت میں جو کھیل تماشے ہو رہے ہوتے ہیں، وہ ہر کسی کی نظر میں آئے بغیر نہیں رہتے۔

ہم سب فطرت جو جو گُل کھِلا رہی ہوتی ہے، اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یعنی استعجاب ہمیں سب کو متاثر کیے رکھتا ہے۔ زندہ بھی رکھتا ہے اور متجسس بھی۔

گھر کی پہلی منزل پر جو برآمدہ ہے، اس کے آگے سائے کے لیے علاحدہ سے شیڈ بنا ہوا ہے۔

باہر گلی میں جہاں جہاں جگہ ملتی ہے، چڑیاں اپنے گھونسلے بناتی رہتی ہیں۔

بچوں نے سوچا یہاں گھر میں انھیں بنا بنایا گھونسلہ مہیا کیا جائے۔ تو اس شیڈ  کے نیچے چھت کی دیوار کے ساتھ گتے کا ایک ڈبہ لٹکا دیا۔ سامنے کی طرف دروازہ بھی بنایا گیا۔ اوپر ڈھکنوں پر ٹیپ لگا دی۔

کئی مہینے یونہی گزر گئے۔ کبھی کوئی چڑیا یا چِڈا آ کر بیٹھ جاتا۔ اور پھر اُڑ جاتا۔ اپنے معمول کے مطابق۔

برآمدے سے آگے چھت بھی ایک صحن کی طرح ہے۔ وہاں دونوں طرف قطار میں گملے رکھے ہیں۔ سخت سردی اور گرمی میں یہ گملے بھی برآمدے کے نیچے آ جاتے ہیں، تاکہ موسم کی شدت سے محفوظ رہیں۔

پرندوں کے لیے ان گملوں میں لگے پودوں میں ایک فطری کشش ہے۔

اب اور تب تتلیاں بھی جھولتی جھالتی آ جاتی ہیں۔ اپنی لٹک جھٹک دکھاتی ہیں۔ کبھی اس پودے پر بیٹھ، کبھی اس پودے کے اوپر چکر کاٹ۔

کوئی سال ایک بیت گیا۔ اب گھر کے کسی فرد کا دھیان سرگرم نہیں رہا کہ ’’ریڈی میڈ‘‘ گھونسلے میں کیا ہو رہا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ وہاں تنکے آنے شروع ہوئے۔ ڈبے کے اندر تزئین و آرائش کا کام جاری ہوا۔

ایک چڑیا اور چِڈے نے اس گھونسلے کو بسانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

پھر بچوں کی چیں چیں کی آوازیں رونق بڑھانے لگیں۔

یعنی اس مصنوعی گھونسلے کو بالآخر چڑیوں نے قبول کر لیا، اور آشیانے کا درجہ دے دیا۔

ایک جوڑے نے اسے اپنا گھر کیا بنایا، اب تو جیسے اس گھونسلے کی مانگ بڑھ گئی۔ لڑائی شروع ہو گئی قبضے کے لیے۔ چِڈے لڑائی کا فریضہ انجام دیتے۔ چڑیاں علاحدہ بیٹھی دیکھتی رہتیں۔

اور جو فاتح جوڑا ہوتا، وہ اس گھونسلے میں بس جاتا۔

ہاں، کبھی کبھی فاختہ بھی آتی، گھونسلے کے اوپر بیٹھتی اور پھر اڑ جاتی۔

لیکن ابھی کچھ ہفتے پہلے ایک نئی پیش رفت ہوئی۔

فاختہ گھونسلے کے اوپر آ بیٹھی تو حضرتِ داغ کی طرح بیٹھ ہی گئی۔ ہِلی نہیں۔ گئی نہیں۔

نیچے جو چڑیا اور چِڈے کا جوڑا بسا ہوا تھا، اب انھیں تشویش لاحق ہوئی۔

چِڈا فاختہ کے قریب تو نہ آتا، ہاں، نزدیک بیٹھا چوں چوں، چوں چوں لگائے رکھتا۔

فاختہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز چپ براجمان رہی۔

گھر میں سب کا خیال تھا کہ اب تو یہ گھونسلہ دومنزلہ ہو گیا۔

نیچے چڑیاں بسی ہیں، اوپر فاختائیں۔

چونکہ فاختہ ہلتی بھی نہیں تھی، آتی جاتی بھی نہیں تھی، لہٰذا، قیاس یہ تھا کہ وہ انڈے دے چکی ہے۔

کوئی ہفتہ دو ہفتے حالات جوں کے توں رہے۔ جیسے کہ سپریم کورٹ نے ’’سٹے آرڈر‘‘ دے دیا ہو۔ اور توہینِ عدالت کے ڈر سے کچھ نہ ہوا۔

مگر پھر ایک صبح دیکھا کہ ایک انڈہ نیچے گرا پڑا ہے۔ اوپر فاختہ بھی موجود نہیں تھی۔

ہمارا خیال تھا کہ یہ چِڈے کی کارستانی ہے۔ اور اب تیسری جنگِ عظیم کی ابتدا ہونے والی ہے۔

مگر سارا دن گزر گیا، اور فاختہ پلٹ کر نہیں آئی۔

اگلے دن سکون رہا۔ چڑیا چِڈا اپنے گھونسلے میں آ جا رہے تھے۔

ہم نے سوچا لیں جی تیسری جنگِ عظیم کا خطرہ ٹل گیا۔

تو کیا فاختائیں اس قدر امن پسند ہوتی ہیں؟

جو بھی ہے، یوں جنگِ عظیم تو ٹل گئی نا!

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments