نوٹ: یہ مختصر تحریر 17 جون، 2017 کو ویب سائیٹ: WWW.UrduAlert.com پر شائع ہوئی۔
ایک تو یہ کہ رمضان میں پھلوں کا استعمال اور یوں طلب بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ پھلوں کی رسد بڑھ نہیں پاتی۔
قطع نظر اس سے کہ پھل دار پودوں کی کاشت جتنی بھی بڑھا لی جائے، ان کی پیداوار کا انحصار موسم پر ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ پھلوں کو ایک مختصر مدت کے اندر ہی استعمال میں لایا جا سکتا ہے؛ بصورتِ دیگر یہ ناقابلِ استعمال ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا، ان کی رسد کو ایک حد کے اندر رہتے ہوئے ہی بڑھایا جا سکتا ہے۔
یہی سبب ہے کہ جب روزوں کے دوران پھلوں کی طلب میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے، تو اسی حساب سے ان کی رسد کو بڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔ اور یوں ان کی قیمتیں بھی غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ابھی پھلوں کو محفوظ رکھنے اور محفوظ کرنے کے تسلی بخش انتظامات موجود نہیں۔ اگر ایسے انتظامات ہو جائیں تو روزوں میں پھلوں کی طلب بڑھنے کے ساتھ ان کی رسد میں اضافہ کرنا ممکن ہو جائے گا۔
پھلوں کے مقابلے میں، جہاں تک پکوڑوں، سموسوں اور کچوریوں کا معاملہ ہے، چونکہ رمضان میں ان کی طلب بڑھتے ہی ان کی رسد بھی اسی حساب سے بڑھ جاتی ہے، یوں ان کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوتا، یا اس قدر اضافہ دیکھنے میں نہیں آتا، جتنا اضافہ پھلوں کی قیمتوں میں ہو جاتا ہے۔
پھلوں کے بائیکاٹ کی جو مہم چلائی گئی، وہ ناسمجھی پر مبنی تھی اور گمراہ کن بھی تھی۔ گو کہ یہ ہر صارف کا حق ہے کہ وہ کوئی شے خریدے یا نہ خریدے۔
تاہم، اس قسم کے بائیکاٹ کے نتیجے میں، غالباً چند دنوں کے لیے پھلوں کی قیمتوں میں کچھ کمی تو ہو جائے گی، کیونکہ ان کی طلب گھٹنے سے رسد بڑھ جائے گی۔ مگر جیسے ہی یہ طلب پھر بڑھے گی، پھلوں کی قیمتیں پھر بڑھ جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک رمضان میں پھلوں کی رسد، طلب کی حساب سے بڑھ نہیں پاتی، ان کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی۔