پاکستان کے ’’دشمن‘‘ اس کی سرحدوں کے باہر نہیں، سرحدوں کے اندر ہیں۔
اور یہ ’’دشمن‘‘ ہیں: دانشوروں کے تعصبات اور ان کے ذہنوں کا فتور۔
ان دانشوروں کی زنبیل میں تصورات اور نظریات تو ہیں نہیں۔ ہاں، ان کے آدرشوں کے محل محض نفرتوں اور محبتوں کے ستونوں پر استوار ہیں۔
مراد یہ کہ یہ دانشور خود کو سماجیاتی پسماندگی یا پسماندہ سماجیات سے بلند کر کے تصورات اور نظریات کی سطح پر نہیں لا سکے۔
یعنی پاکستان کی مجموعی پسماندگی کی جڑیں بیشتر اس کی سماجیات میں پیوستہ ہیں: جیسی سماجیات، ویسی سیاسیات
نوٹ: اگر پاکستان کے کچھ ’’دشمن‘‘ اس کی سرحدوں کے باہر موجود ہیں تو وہ سمندر پار پاکستانی ہیں۔ (واضح رہے یہ اشارہ صرف انصافی پاکستانیوں کی طرف نہیں، بلکہ تمام سمندر پار پاکستانیوں کی طرف ہے۔)