اگر کوئی شخص اپنی نارمل زندگی سے اوپر اٹھ کر اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور دانشور اشرافیہ کے تانے بانے کو توڑنا چاہے، ریاست اور اس کے وسائل پر ریاستی اشرافیہ کے غیر آئینی غیر قانونی قبضے کو چیلنج کرنا چاہے، دانشور اشرافیہ نے فکر و نظر کے اشاعت کدوں پر جو اجارہ قائم کیا ہوا ہے اس پر سوال اٹھانا چاہے، تو اسے تنہا کر دیا جاتا ہے۔ اس کے تصورات، نظریات اور تجزیات کو گھونٹ کر مارنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کام محض اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور دانشور اشرافیہ ہی نہیں کرتی، بلکہ اصل میں یہ کام اجلافیہ، بزعمِ خود اجلافیہ کے نمائندے، اشرافیہ پسند اور اشرافیہ پرست کرتے ہیں۔
مگر اب آج سوشل میڈیا دستیاب ہے، جو کم از کم اوپر جس کا ذکر ہوا ایسے فرد کے تصورات، نظریات اور تجزیات کو تنہائی کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ گو کہ اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور دانشور اشرافیہ یہاں بھی اپنا قبضہ اور اجارہ قائم کر چکی ہے اور اجلافیہ اس کی پیروکار بنی ہوئی ہے۔