دانشور اشرافیہ، ثقافتی اشرافیہ اور سیاسی اشرافیہ کا ایک مخصوص حصہ شیریں مزاری پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ ٹوٹے ہیں، ان پر ہاہا کار مچائے ہوئے ہے۔
یہ ہاہا کار اس وقت بھی مچی تھی، جب ایک مرتبہ پہلے انھیں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی دختر ایمان مزاری نے جینرل باجوہ کو گالی دی تھی۔ اور غالبأ ایک اور موقعے پر شیریں مزاری نے خود جو پولیس انھیں گرفتار کرنے آئی تھی، انھیں بھی گالی دی تھی۔
ایمان مزاری نے اپنی والدہ کی پے در پے گرفتاری پر جو اشک بہائے، ان پر بہت دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی اور آخری مرتبہ کسی ’’سیاسی قائد‘‘ (شیریں مزاری) پر ظلم ہوا ہے۔
گو کہ یہ واضح نہیں کہ شیریں مزاری تحریکِ انصاف میں کیونکر اور کیسے شامل ہوئی تھیں، اور اب اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انھوں نے دباؤ کے تحت پارٹی چھوڑی ہے، تو اس میں انوکھی بات کونسی ہے۔ کیا پاکستان کی سیاست مین یہ سب کچھ پہلے نہیں ہوتا رہا۔ کیا شیریں مزاری کی پارٹی اور ان کے لیڈر یہ سب کچھ نہیں کرتے رہے۔
یقینأ یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی ذمے داری بھی بہر صورت سیاست دانوں کے کاندھوں پر ہے۔
کیا خود شیریں مزاری تحریکِ انصاف کی حکومت کے تحت جو کچھ کیا گیا اس سے بری الذمہ ہیں۔ اور دوسرے سیاسی قائدین کے ساتھ اس سے بھی بدتر ظلم و ستم کیا گیا، جس سے متعلق رونا دھونا ان کے ضمن میں مچایا جا رہا ہے۔
اور میں دانشور اشرافیہ اور ثقافتی اشرافیہ کے اس رویے پر بھی ناخوش ہوں کہ کیا انھیں صرف شیریں مزاری ہی نظر آتی ہیں۔ صرف ان پر ہوتا ظلم و ستم نظر آتا ہے۔
کیا اس دانشور اور ثقافتی اشرافیہ نے کبھی شیریں مزاری کی ’’بدزبانی‘‘ پر غور کیا اور اسے غلط قرار دیا۔ ابھی میں ان کے ان ٹویٹس کی بات نہیں کر رہا، جو صریحأ جھوٹ کا پلندہ تھے۔ جن میں نفرت، کینہ اور بغض کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
اگرچہ شیریں مزاری ایک تھِنک ٹینک چلاتی رہی ہیں، ایک سکالر ہیں، مگر تحریکِ انصاف یا عمران خان کی خاطر انھوں نے جو رویہ اور زبان اپنا لی تھی، کیا دانشور اور ثقافتی اشرافیہ نے کبھی ان معاملات پر بات کی۔
میری تشویش صرف یہ ہے کہ کیا محض سیاسی اشرافیہ پر ظلم ہوتا ہے۔ تحریکِ انصاف کے وہ کارکن جو گرفتار ہیں، یا تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں جو قائدین اور کارکن گرفتار کیے گئے، یعنی یہ جو اجلافیہ ہے، جو سیاسی ایندھن بنتی ہے، کیا ان کے والدین، بہن بھائی اور عزیز و أقارب کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یا وہ یتیم ہوتےہیں۔ کیا صرف اشرافیہ کے والدین ہوتے ہیں، کیا صرف اشرافیہ کے بہن بھائی ہوتے ہیں، کیا صرف اشرافیہ کی أولاد ہوتی ہے۔
جہاں تک ایمان مزاری کا معاملہ ہے، میں بطور وکیل ان کے کام کو بہت قابلِ قدر مانتا ہوں۔ مگر اپنی والدہ کے ضمن میں ان کا طرزِ عمل قطعأ قابلِ قدر نہیں۔ ان کے رویے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ بس وہ اور ان کی والدہ اور ان کا گھرانہ اہم ہے۔ خود ان کے لیے اہم ہو گا، مگر یہ سیاسی معاملہ قطعأ نہیں۔ ان کے رویے سے یہ بھی عیاں ہے کہ ان کی والدہ اور ان کے گھرانے کے علاوہ، باقی سب ’’چھان بورہ‘‘ ہیں۔
جب پہلے شیریں مزاری کو گرفتار کیا گیا، تو اس وقت (23 مئی، 2023) بھی میں نے ایک مختصر تحریر لکھی تھی۔ اسے بھی ذیل میں نقل کرتا ہوں:
’’کچھ سوال
شیریں مزاری کو کس نے گرفتار کیا؟ جس نے بھی گرفتار کیا۔
ذمے دار حکومت ہے۔
شیریں مزاری نے پولیس کو ’’باسٹرڈ‘‘ کہا۔
ذمے دار حکومت ہے۔
آیا عدلات نے پولیس کو دی گئی گالی کو ریکارڈ کا حصہ بنایا؟
ذمے دار حکومت ہے۔ کیونکہ حکومت کی طرف سے اسے ریکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست کی ہی نہیں گئی۔
اور جب پولیس عام لوگوں کو گالیاں دیتی ہے، تو کیا کوئی عدالت اس معاملے کو ریکارڈ پر لاتی ہے۔
ذمے دار حکومت ہے۔ کیونکہ حکومت اس چیز کو ریکارڈ پر لانا ہی نہیں چاہتی۔ نہ عام لوگوں کے معاملے میں، نہ پولیس کے معاملے میں۔‘‘
آخری بات: اصل میں اشرافیہ کا نظریہٴ انسان ثنویت پر مبنی ہے۔ اس کے نزدیک دو طرح کے انسان ہوتے ہیں، ایک اشراف اور دوسرے اجلاف۔ اشراف اعلیٰ و برتر درجے کے انسان ہیں، لہٰذا وہ مختلف سلوک کے مستحق ہیں۔ جبکہ اجلاف ادنیٰ درجے کے گھٹیا انسان ہیں، ان کے ساتھ سلوک بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔
اشرافیہ کے ثنویت پر مبنی اس انسانی نظریے کے ضمن میں تازہ ترین ثبوت ملاحظہ کرنے کے لیے یوٹیوب پر خدیجہ شاہ کی سولہ منٹ کی وڈیو دیکھیے۔ اور جنگ میں عمر چیمہ نے ان پر جو سٹوری کی ہے، اسے پڑھیے۔
خدیجہ شاہ، اشرافیہ کے ایک گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ سابق جینرل آصف نواز جنجوعہ کی پوتی اور سابق صوبائی وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کی بیٹی ہیں۔ اپنی وڈیو میں ان کا کہنا یہ ہے کہ مجھے گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے اور میرے ساتھ مختلف سلوک ہونا چاہیے۔