آپ سوچنے سمجھنے والے فرد ہیں۔ تصورات و نظریات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ درپیش معاملات و مسائل کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اپنے خیالات کو مجتمع کرتے ہیں، اور یہ چیز ایک مضمون کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اب آپ کیا کریں گے۔ یہی کہ یہ مضمون کہیں شائع ہو تاکہ پڑھا جائے، زیرِبحث آئے۔ اور یوں آپ کے خیالات پرکھ و جانچ کے عمل سے گزریں۔ اور اگر درست اور موثر ہیں تو ان کی پذیرائی ہو۔ اور یوں ممکنہ طور پر یہ کسی تبدیلی کا سبب بن سکیں۔
مگر پاکستان میں ایسا ہونے کے امکانات قریب قریب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آپ نے مضمون قلمبند کر لیا۔ اب یہ مرحلہ درپیش ہو گا کہ یہ شائع کیسے ہو۔
پہلا کام تو یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اسے بطور خط یا بطور ایمیل کسی اخبار کو بھیج دیں۔ مگر یوں اس کے شائع ہونے کا غالباّ کوئی امکان نہیں۔
فرض کیجیے یہ کسی کی نظر میں آ گیا، تو وہ اس پر نظر ڈالے گا، اور سوچے گا یہ کون ہے۔ اس کا نام تو نہیں سنا۔ پتا نہیں کیا لکھا ہے اس نے۔ وہ اسے پرے رکھ دے گا۔
فرض کیجیے آپ کا یہ مضمون جس کی نظر میں آیا ہے، وہ اسے پڑھنا گوارا کر لیتا ہے۔ اور وہ حیران بھی ہوتا ہے کہ بات استدلال کے ساتھ کہی گئی ہے۔ وہ اسے شائع کر دیتا ہے۔
یہ خوش قسمتی ہو گی۔ آپ سوچیں گے اب دوسرا مضمون بھی شائع ہو جائے گا۔ مگر اغلب یہی ہے کہ اب کی مرتبہ آپ کا مضمون ان صاحب کی نظر سے نہیں گزرتا۔ بلکہ کسی کی نظر سے بھی نہیں گزرتا۔
دوسرا کام یہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کوئی تعلق، کوئی رابطہ ڈھونڈیں جو کسی اخبار یا جریدے میں یا پھر اس کے ادارتی عملے تک رسائی رکھتا ہو۔
اگر آپ کو ایسا کوئی تعلق کوئی رابطہ مل گیا، تو یہ آپ کی خوش قسمتی ہے۔
یا اگر آپ نے کوئی کتاب لکھ لی ہے، پھر بھی آپ کو انھی یا ان جیسے مراحل، ابتلا اور آزمائش سے گزرنا ہو گا، اور ناکامی اور مایوسی قدم قدم پر آپ کا استقبال کرے گی۔ دانشور اشرافیہ کا شکنجہ، ریاستی اشرافیہ کے شکنجے کی طرح قریب قریب ناقابلِ تسخیر ہے۔
ایک کام اور ہو سکتا ہے۔ اگر آپ صاحبِ وسائل ہیں، تو خود اپنا کوئی رسالہ، وغیرہ، شائع کرلیں۔ یا آپ اپنی کتاب خود شائع کر لیں۔ مگر اس کی ترسیل و تقسیم کیسے ہو گی؟ اسے پڑھے گا کون؟
ترسیل و تقسیم کا نظام بھی اسی انداز پر استوار ہے، جس انداز پر نشرواشاعت کا نظام کام کر رہا ہے۔
پاکستان میں مجموعی طور پر ایسا کوئی نظام یا طریقِ کار وجود نہیں رکھتا، جو نئے لکھنے والوں پر متوجہ ہو۔
یہاں من حیث المجموع، جو نظام یا طریقِ کار رائج ہے۔ وہ ایک تانے بانے کی طرح بُنا ہوا ہے۔ یہ ایک نیٹ ورک کی طرح کام کرتا ہے۔ یہ کچھ مخصوص حلقوں پر مشتمل ہے۔
اب یا تو آپ کسی طور ایسے کسی تانے بانے یا نیٹ ورک یا حلقے کا حصہ بنیں، تب آپ کا مضمون شرفِ اشاعت پا سکے گا، وگرنہ یہ ان سُنا ان پڑھا پڑا رہے گا۔ اور یوں آپ کے خیالات بھی جس کونے کھدرے میں آپ متمکن ہیں، اسی کونے کھدرے کی زینت بنے رہیں گے۔
اور یہ چیز عین ممکن ہے کہ سوچنے سمجھنے پڑھنے لکھنے والے کتنے ہی لوگ یا ان کے نئے اور مختلف خیالات، تصورات اور نظریات شائع نہیں ہو پا رہے۔
یہ ہے وہ ریاستی اشرافیہ کے تانے بانے کی طرح بُنا ہوا دانشور اشرافیہ کا تانا بانا، جو نئے لکھنے والوں یا نئے اور مختلف خیالات، تصورات اور نظریات کو آگے نہیں آنے دیتا۔ یہ تانا بانا کوئی سازش نہیں، مگر اپنے نتیجے میں یہ سازش سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
کیونکہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خیالات، تصورات اور نظریات کی نشرواشاعت اور ترسیل چند مخصوص لوگوں تک محدود ہو جاتی ہے۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ محدود کر دی جاتی ہے۔
میں اس بات کو محتاط انداز میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ یہ کوئی منصوبہ بند سازش ہے۔ مگر جب میں یہ کہتا ہوں کہ محدود کر دی جاتی ہے، تو میرے ذہن میں وہ صورتیں موجود ہوتی ہیں، جن میں نشرواشاعت اور ترسیل سے متعلق اربابِ اختیار نئے لکھنے والوں کے ساتھ ارادتاّ ایسا کر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے تانے بانے، نیٹ ورک اور حلقے کی روایات اور اندازواطوار کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ کام یقیناّ سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔
لہٰذا، جب خیالات، تصورات اور نظریات کی نشرواشاعت اور ترسیل چند مخصوص لوگوں تک محدود ہو جاتی ہے، یا محدود کر دی جاتی ہے، تو دو نکات اہم ہو جاتے ہیں۔ یا عملاّ اس کے دو نتائج نکلتے ہیں۔
پہلا نکتہ یا نتیجہ یہ ہے کہ عقل و دانائی اور علم و دانش بس ان چند لوگوں تک محدود ہے، جن کے خیالات، تصورات اور نظریات فی زمانہ شائع ہو رہے ہیں اور جن کی ترسیل ہو رہی ہے۔ یعنی بس یہی چند منتخب لوگ ہیں، جو جانتے ہیں اور جاننے والے ہیں، اور یہی چند لوگ ہیں، جو عقل و دانائی اور علم و دانش کا منبع ہیں۔
دوسرا نکتہ یا نتیجہ یہ ہے کہ ریاست و معاشرہ دونوں ایک فکری دلدل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، کیونکہ نئے اور مختلف خیالات، تصورات اور نظریات کو سامنے آنے کا موقع نہیں ملتا۔ جو بصورتِ دیگر نئی راہیں سُجھانے اور نئے در وا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یا پھر اس کے علاوہ اور کیا صورت ہو سکتی ہے؟
جس طرح پاکستان کی سیاست اور معیشت، ریاستی اشرافیہ کی دسترس میں ہے، اسی طرح، پاکستان کی فکرودانش، دانشور اشرافیہ کی دسترس میں ہے۔
اور جس طرح، پاکستان کی سیاست اور معیشت ایک نامختتم بحران میں گھری ہوئی ہے، اسی طرح، پاکستان کی فکرودانش بھی ایک نامختتم بحران میں گرفتار ہے۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بحران نہیں، ایک دلدل ہے۔ کیونکہ اس سے باہر نکلنے کی ہر کوشش کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست اور معیشت، اور فکرودانش، دونوں، دلدل میں اور زیادہ دھنستی چلی جا رہی ہیں۔
تاہم، یہ عیاں ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کے ضمن میں پہلا قدم دانشور اشرافیہ کے تانے بانے کو توڑنا ہے تاکہ نئے اور مختلف خیالات، تصورات اور نظریات کے پنپنے اور سامنے آنے کی راہ ہموار ہو سکے۔
یعنی پہلی شرط یہ ہے کہ ہر رنگ کے پھولوں کو کھلنے دیا جائے۔