Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

جعل ساز یا قانون ساز

پاکستان میں ”جرم“، ریاست، سیاست اور حکومت کے ساتھ لازم و ملزوم بن گیا ہے۔ جرائم پیشہ سیاست اور جرائم پیشہ حکومتوں نے پاکستان کو جرائم پیشہ ریاست بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس کی تازہ مثال بلوچستان کے انسپیکٹر جینرل پولیس نے مہیا کی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں کالعدم جہادی تنظیموں کے رہنماؤں سے اپنی ملاقات کے حوالے سے، جو انھوں نے اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ کسی حکم کی تعمیل کے لیے کی ہو گی، ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان روابط کا مقصد جہادی جنگجوؤں کو یہ یقین دلانا ہے کہ پاکستان ان سمیت ہر شہری کا ملک

Read More »

انصاف کی قابلِ تقلید مثال

کیاانصاف ممکن ہے؟ بالخصوص اگر ایک فرد یا افراد کا ایک مختصر گروہ، قتلِ عام کا مرتکب ہو تو پھر انصاف کی نوعیت کیا ہو گی؟ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ انصاف ممکن نہیں۔ مثلاً اگر کسی فرد کی جان لی گئی ہے، یا اسے کوئی نقصان پہنچایا گیا ہے، تو اس کی کوئی تلافی ممکن نہیں۔ تاہم، انسانی تہذیب نے ”قانونی انصاف“ کا تصور ضرور وضع کیا ہے، جسے انصاف کو گرفت کرنے کی بڑی کوشش ضرور کہا جا سکتا ہے۔ اور حقیقتاً یہی قانون پر مبنی انصاف ہے، جو کسی مثالی انصاف کا بدل ہو سکتا ہے۔ پھر

Read More »

ویسے یہ پستول کس کا ہے؟

یہ ایک مشاہدے کی بات ہے کہ سوسائیٹی کا نظامِ اقدار، قانون کی عمل داری سے ناگزیر طور پرجڑا ہوتا ہے۔ جتنا قانون کی عمل داری کمزور ہوگی، اتنا ہی اس سوسائیٹی کا نظامِ اقدار بھی کمزور ہو گا۔ پاکستان پر نظر ڈالیں تو یہ ربط عیاں ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ایک مشاہدے کی بات ہے کہ قانون کی عملداری اور نظامِ اقدار کی کمزوری یا عدم موجودگی، افراد کو عجیب و غریب عفریت بنا دیتی ہے۔ اس کے ایک سرے پر وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کے پاس ریاست کی، یا سیاست کی، یا حکومت کی طاقت

Read More »

Political parasitism in Sindh

Today is the day when the five-year term of President Asif Ali Zardari has come to an end (writing this blog in the evening). See the today’s newspapers. I guess almost in every paper there is a full-page ad. I saw 4 newspapers: Jang, Express, The News, The Express Tribune. The ad has been given by the Sindh Government, where Peoples Party is the ruling party. In the ad with a photo of Asif Ali Zardari is printed: I translate: “The trustee / preserver of democratic traditions” Then the “achievements and the accomplishments” of this “trustee / preserver” has been

Read More »

سندھ میں سیاسی طفیلیت

جیسا کہ آج آصف علی زرداری کے عہدۂ صدارت کی مدت ختم ہو گئی ہے۔ آج کے اخبارات دیکھیے۔ میرا اندازہ ہے کہ قریب قریب ہر اخبار میں پورے صفحے کا ایک اشتہار موجود ہے۔ چار اخبار تو خود میری نظر سے گزرے ہیں: جنگ، ایکسپریس، دا نیوز، دا ایکسپریس ٹریبیون۔ یہ اشتہار سندھ حکومت کی طرف سے دیا گیا ہے، جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ اشہتار میں آصف علی زرداری کی تصویر کے ساتھ یہ عنوان بنایا گیا ہے: جمہوری روایات کے امین کو سلام اور پھر ’’جمہوری روایات کے امین‘‘ کی ’’کامیابیاں اور کامرانیاں‘‘ گنوائی گئ ہیں۔

Read More »

آدم خور ریاست، آدم خور سیاست دان

”انصاف کو علاحدہ رکھ دیں، اور پھر دیکھیں تو مملکتیں کیا ہیں، غنڈوں کے عظیم گروہ؟ غنڈوں کے گروہ کیا ہوتے ہیں، غنڈوں کی چھوٹی چھوٹی مملکتیں؟ کیونکہ غنڈہ گردی میں ماتحتوں کے ہاتھ سردار کی ہدایتوں کے پابند ہوتے ہیں، ان کا اتحاد اکٹھے حلف اٹھاتا ہے، اور قانون کے تحت لوٹ کا مال حصوں میں بانٹا جاتا ہے۔ اور اگر یہ لفنگے اتنی ترقی کر جائیں کہ قلعوں کے مالک بن جائیں، آبادیاں بسا لیں، شہروں پر قبضہ کر لیں، اور ملحقہ قوموں کو فتح کر لیں، تو ان کی حکومت کو غنڈہ گردی کا نام نہیں دیا

Read More »

پاکستان کے اہم سیاسی مسائل

پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی مسائل کی نوعیت انتہائی حیران کن ہے۔ آئیے ذرا اخبارات کے آئینے میں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ، مثلاً، پاکستان کے اہم ترین مسائل کونسے ہیں۔ گذشتہ ہفتے کے آغاز میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری نہ صرف لاہور وارد ہوئے، بلکہ یہاں قیام پذیر بھی رہے۔ انھوں نے فرمایا: ’میں نے وعدہ کیا تھا کہ لاہور میں بیٹھوں گا۔ اب میں نے لاہور میں ڈیرہ جما لیا ہے، اور یہ وعدہ پورا ہو گیا۔‘ انھوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا: ’ہم کسی کو برا بھلا کہنے کی سیاست نہیں کرتے۔ بولنے

Read More »

پرانے کالم: عدم تحفظ کا احساس

سمت کو ئی محفوظ نہیں ہے قدم قدم پر خطرہ ہے یکدم کچھ بھی ہو سکتا ہے کوئی بھی آفت آ سکتی ہے اک لمحہ بھی غافل ہونا موت کو دعوت دے سکتا ہے پھنکاریں، چنگھاڑیں ہیں اور کلیجہ چیر کے رکھ دینے والی آوازیں حشراتِ ارضی کا مسکن اور درندوں کا ڈیرہ ہے انسانوں کا نام نہیں سانپ اور بچھو ریچھ اور چیتے بستے ہیں زہریلے خودرو پودوں سے اٹا ہوا ہے شہر نہیں یہ جنگل ہے پھونک پھونک کے پاﺅں رکھو بچ بچ کے چلو! ہمارے معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس شدید ہوتاجا رہا ہے۔ لوگ ایک مطمئن اور

Read More »

آئینی استحکام اور سیاسی ہیجان

پاکستانی فوج کو بالآخر ہزاروں شہریوں کی قیمتی جانوں، اور شہریوں کے ٹیکس کے اربوں کھربوں روپوں کے نقصان کے بعد یہ سمجھ آنے لگا ہے کہ پاکستان کے اصل اور بڑے دشمن پاکستان کے اندر ہی موجود ہیں۔ اب یہ ایک جدا حقیقت ہے کہ اس نقصان اور اس مہم جوئی کی آئینی ذمے داری سیاست دانوں کے سر آتی ہے، جنھوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے یہ سب کچھ ہونے دیا۔ لیکن قائمیہ یعنی ایسٹیبلِشمینٹ سمیت، یہ مجرم سیاست دان، اور پاکستانی سیاست کے رنگ رنگ کے مہم جو اور ان کے حواری اور حمایتی، سب کے

Read More »

مافیا سیاست کا کچا چٹھا

نوٹ: یہ کالم، سابقہ کالم ’’مافیا سیاست کی جنم کنڈلی‘‘ کا دوسرا حصہ ہے۔ پاکستان میں ریاست، حکومت اور سیاست کی سرپرستی میں موجود مافیا گروہوں کو دو خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جن کی زندگی اور زندگی کی بقا، دونوں کا انحصار مافیا ہونے اور مافیا رہنے پر ہے۔ یہ اگر مافیا بن کر نہ رہیں تو زندہ نہیں رہ سکتے۔ مافیا ہونا، نہ صرف ان کی سرشت میں ہے، بلکہ ان کی روحِ رواں بھی ہے۔ مافیا کی دوسری قسم وہ ہے، جنھیں ایک ایسے ماحول میں زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لیے، جہاں

Read More »

ویلینٹائن ڈے کے لیے ایک نظم

محبت پل رہی ہے جھونپڑوں میں، کوٹھیوں میں راستوں پر گلیوں بازاروں میں سڑکوں پر محبت پل رہی ہے بستیوں میں، کٹڑیوں میں ایک کمرے کے مکانوں میں محبت پل رہی ہے آنچلوں میں، چادروں میں آنگنوں میں، لان میں چاردیواروں کے پردوں میں محبت پل رہی ہے سنگدل جسموں میں بے آب و گیاہ ذہنوں، دماغوں میں محبت پل رہی ہے آستانوں اور مزاروں پر میلوں ٹھیلوں میں محبت پل رہی ہے دفتروں میں، کارخانوں میں ورکشاپوں، سیمیناروں میں محبت پل رہی ہے پارکوں میں گلشنوں میں اور گھنے پیڑوں کے نیچے پھولوں کی نمائش میں سدا یونہی پھلے

Read More »

مافیا سیاست کی جنم کُنڈلی

یہ بات درست ہے کہ مافیا گروہ ہر جگہ جنم لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ مافیا گروہوں کے جنم لینے اور پرورش پانے کے لیے ہر زمین، زرخیز اور ہر ماحول سازگار نہیں ہوتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان ممالک میں، جہاں آئین اور قانون کی بالا دستی ہوتی ہے اور ان کی حکمرانی کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں، وہاں مافیا گروہوں کا جڑ پکڑنا پانی کی غیر موجودگی میں کسی پودے کی افزائش کے مترادف ہوتا ہے۔ مثلاً ترقی یافتہ ممالک، جیسے کہ امریکہ میں بھی مافیا گروہ تشکیل پا

Read More »

مسلم لیگ (ن) اور پنجاب میں پبلک ٹرانسپورٹ کی خرابی

پنجاب میں جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنتی ہے، یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے ساتھ نت نئے تجرے کیےجاتے ہیں، اور ہر مرتبہ نئے تجربے کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ مزید کمیاب اور مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس کے ساتھ جڑے مسائل اور تکالیف کبھی حل نہیں ہو پاتیں۔ ذیل میں اسی طرح کے ایک تجربے کا جائزہ لیا گیا ہے، جو مسلم لیگ (ن) کے طرزِ حکمرانی کا شاہکار تھا۔ یہ تجربہ کب کا لِپٹ چکا۔ کھیل ختم، پیسہ ہضم! آج کل ’’لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی‘‘ (ایل ٹی سی) کے نام سے ایک نیا تجربہ کیا

Read More »

بلدیہ فیکٹری سانحہ – انتقام یا انصاف

کراچی، بلدیہ ٹاؤن کی گارمینٹس فیکٹری میں گذشتہ ستمبر میں لگنے والی آگ کو، جس میں ڈھائی سو سے زیادہ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، نجی اور سرکاری کوتاہی کے ساتھ ساتھ مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس دل دہلا دینے والے سانحے پر میرا ایک کالم ”حکومتیں آگ میں کب جلیں گی“ پہلے ہی شائع ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں متاثرہ خاندانوں کے نقصان کی تلافی کے ساتھ ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرنا، ناگزیر ہے۔ یوں، ان لوگوں کی کچھ نہ کچھ تسلی و تشفی ہو سکتی ہے، جن کے کھوئے ہوئے سہارے

Read More »

ترقی پسند مصنفین، انگریزی ناول اور میڈیا

[نوٹ: یہ تحریر 21 جولائی 2012 کو ’’اردو بلاگ ـ سب کا پاکستان‘‘ کے لیے  لکھی گئی تھی اور 23 جولائی کو پوسٹ کی گئی۔] گذشتہ ماہ کی بات ہے، جب ایک ہی روز دو تقریبات میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کوشش تھی کہ اسی دن یا اگلے دن ان کے بارے میں لکھوں، مگر مصروفیات کی بنا پر یہ کام ملتوی ہوتا رہا۔ یہ جون (2012) کا پہلا دن تھا۔ پہلی تقریب، ”منٹو – ایک صدی کا قصہ“، پنجاب پبلک لائبریری ہال، لاہورمیں منعقد ہوئی۔ سہ پہر تین بجے کے قریب۔ اس کا انعقاد انجمن ِ ترقی پسند مصنفین لاہور نے کیا تھا۔ دعوت نامے

Read More »

پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟

یہ سوال کچھ عجیب سا لگے گا۔ یہ سوال اٹھانے والا کچھ ”خود پسند“ محسوس ہو گا۔ یقین کیجیے، یہ سوال بہت اہم ہے۔ اصل میں پاکستان میں جھوٹے تصورات کا ایک ایسا جال بُن دیا گیا ہے کہ کسی پاکستانی شہری کو یہ سوال اٹھانے کا خیال ہی نہیں آتا۔ ہم بے چارے اسی بوجھ تلے دبے رہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو کیا دے رہے ہیں۔ ہم بے چارے حُب الوطن بھی ہیں یا نہیں۔ حُب الوطنی کے تقاضے پورے کرنے کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔ ہمیں یہ سوال اٹھانا یاد ہی نہیں رہتا۔ ہم بے چارے”انڈیا

Read More »

کیا ایڈمرل فصیح بخاری (ریٹائرڈ) بدل گئے ہیں؟

یہ ان دنوں کی بات ہے، جب قانون کی حکمرانی کے لیے وکلا کی تحریک زوروں پر تھی۔ 9 مارچ 2007 کو طاقت کے ایک نمائندے کو قانون کے ایک نمائندے نے جو انکار کیا تھا، وہ پاکستان کے شہریوں کی اکثریت کے لبوں پر ٹھہر گیا تھا۔ بلکہ وہی انکار پاکستان میں قانون کی بالادستی کی تحریک میں ڈھل چکا تھا۔ اس انکار میں ایسی اخلاقی قوت پوشیدہ تھی کہ دہائیوں سے سوئے ہوئے ضمیر جاگ اٹھے تھے۔ ایسے ایسے کونوں کھدروں سے آئین اور قانون کی حکمرانی پر صاد کیا جا رہا تھا، جہاں اس سے قبل صرف

Read More »

نااہل اور غیر حاضر حکومتوں کے نتائج

تیسری دنیا کے ممالک کے ننانوے فی صد مسائل کا سبب قانون کی حکمرانی اور خود کارحکومتی اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ پاکستان غالباً اس کی نمایاں ترین مثال ہے۔ یہاں حکمرانی، یعنی گورنینس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ شہریوں کو منتخب نمائندوں، پارٹی کے عہدیداروں اور سرکاری اہلکاروں کا محتاج اور دست نگر بنا دیا جائے۔ ان میں قومی اسیمبلی، صوبائی اسیمبلیوں اور سینیٹ کے بلا واسطہ اور بالواسطہ طورپر منتخب ہونے والے دونوں طرح کے ارکان کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت، اس کی اتحادی جماعتوں کے وزیر، مشیر، اور اسی طرح کے دوسرے طفیلیے شامل ہیں۔

Read More »

خان فضل الرحمٰن خان کی ادبی سچائی اور انتظار حسین کی گواہی

یہ پوسٹ ایک سابقہ پوسٹ: ’’خان فضل الرحمٰن خان اور ان کا ناول، آفت کا ٹکڑا‘‘، سے جڑی ہوئی ہے۔ جیسا کہ اس پوسٹ میں ذکر ہوا کہ خان فضل الرحمٰن ایک سچے ادیب تھے۔ وہ کہانی اور کردار کے پیچھے چلتے تھے، انھیں اپنے پیچھے نہیں چلاتے تھے۔ پاکستان کیا دنیا میں ایسے سچے ادیب نایاب ہیں۔ انتظار حیسن بھی خان صاحب کی اسی سچائی کی گواہی دیتے ہیں۔ اور ان کی گواہی حرفِ آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ اپنی کتاب، ’’چراغوں کا دھواں (یادوں کے پچاس برس)‘‘ میں ’’آدھا پاکستان نیا پاکستان‘‘ کے تحت لکھتے ہیں: ’’مبارک

Read More »

پاک بھارت جنگ کے سائے؟

جس طرح آج کل لائن آف کنٹرول پر حالات خراب ہو رہے ہیں، اور ایک خوف سا محسوس ہو رہا ہے کہ نوبت کہیں جنگ تک نہ پہنچ جائے۔ اسی طرح کے حالات 1999 کے وسط میں بھی تھے۔ علاوہ ازیں، آج بھی پاکستان کے داخلی حالات اس نوع کی مہم جوئی کو ”جواز“ مہیا کر رہے ہیں۔ انڈیا کو تجارت کے لیے پسندیدہ قوم قرار دینے کا عمل مکمل ہونے کے مراحل میں ہے۔ پاک بھارت دو طرفہ سفر کے ضمن میں شہریوں کے لیے سہولتیں ٹھوس اقدامات میں ڈھلنے کو ہیں۔ دونوں ممالک کی سول سوسائیٹی باہمی تعلقات

Read More »

پاک بھارت مذاکرات کا مخمصہ

جب فروری 1999 میں وزیرِ اعظم بھارت، اٹل بہاری واجپائی بس پر بیٹھ کر لاہو ر آئے تھے تو یہ پاک بھارت سفارت کاری میں ایک بڑا واضح قدم تھا اور اسے دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی سمت میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا گیا تھا۔ اور ”اعلانِ لاہور“ تو دونوں ملکوں کے لیے ایک بڑی کامیاب جست تھا، جس کا ثبوت یہ تھا کہ مخصوص نظریات و تعصبات رکھنے والے افراد اور جماعتیں نہ صرف اس اعلان پر تلملا ئی تھیں، بلکہ اسے تضحیک کا نشانہ بھی بنایا کرتی

Read More »

کیا بجلی کا بحران کبھی ختم ہو سکے گا!

بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے پیچھے پاکستانی سیاست اور ریاست کے سنگین جرائم چھپے ہوئے ہیں۔ جب سے واپڈا کا قیام عمل میں آیا، اس وقت سے اس کے اعلیٰ اہل کاروں نے کیا منصوبہ بندی کی۔ یا اس کے سربراہ بننے والے جینرلوں، بیوروکریٹوں اور ٹیکنوکریٹوں نے بس اپنے گھر ہی بھرے۔ واپڈا کا جو مینڈیٹ تھا، کیا اس کے سرکردگان نے اسے پورا کیا؟ ساتھ ہی ساتھ وہ سیاسی ذمے دار، جو متعلقہ وزارت کے کرتا دھرتا تھے، انھوں نے کیا کیا۔ کیا یہ ان سب کی مجرمانہ غفلت نہیں، جو آج اتنے بڑے بحران کی صورت میں

Read More »

طاہر القادری اوراتھاریٹی کا تصور

کسی بھی قسم کی قوت، طاقت، اختیار، وغیرہ، سب اتھاریٹی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ قوت اور طاقت پیدائشی اور فطری بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ بعض جانور، شیر، ہاتھی، چیتے، گینڈے، پیدائشی اورفطری طور پر طاقت ور ہوتے ہیں۔ یا اسی طرح کچھ افراد بھی طاقت ور ہو سکتے ہیں۔ یا یہ کہ محنت اورکوشش سے بھی مختلف طرح کی قوت اورطاقت حاصل کی جاسکتی ہے۔ جیسے کہ پہلوانی داﺅ بیچ، جوڈو کراٹے، تائی کوانڈو، کنگ فو، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں بھی فرد کو ایک قسم کی طاقت کا حامل بناتی ہیں۔ یہ قوت اورطاقت انسانی وجود

Read More »

پریزیڈینسی اور یومِ نجات

ٹویٹر پر آج کی ٹویٹ: ترجمہ:  یومِ نجات ـ آصف زرداری نے جو نقصان پہنچایا، پاکستانی ریاست، سوسائیٹی اور تصورات پر اس کے اثرات برسوں تک سامنے آتے رہیں گے۔ https://twitter.com/khalilkf

Read More »

’’بھرتی برائے ڈرائیوران و کنڈیکٹران‘‘

نوٹ: یہ ٹکڑا 4 مارچ 2011 کو لکھا گیا اور 21 مارچ 2011 کو ’’اردو بلاگ ـ سب کا پاکستان‘‘ پر پوسٹ ہوا۔ حکومت ِ پاکستان کی بس چلانے کے لیے ڈرائیوران و کنڈیکٹران کی فوری ضرورت ہے ۔ تجربہ کار حضرات و خواتین درخواست کے حصول کے لیے بالمشافہ ملاقات کریں ۔ منتخب حضرات و خواتین کو فارم موقع پر دیا جائے گا ۔ (نوٹ: یہ فارم خفیہ دستاویز ہے جسے ملازمت کے دوران کسی بھی مرحلے پر افشا کرنے والے کو، موت سے لے کر جلاوطنی تک، کوئی بھی سزا دی جا سکتی ہے ۔) صرف قومی یا صوبائی سطح کے ڈرائیوران و کنڈیکٹران درخواست دینے کے

Read More »

ریاستی اشرافیہ کا پاکستان ـ 5ـ اے: بیکری تشدد کیس میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے داماد کی بریت

اس ضمن میں ایک خبر (ریاستی اشرافیہ کا پاکستان ـ 5) پہلے پوسٹ کی جا چکی ہے۔ اب 17 جنوری کے روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں اول صفحے پر یہ خبر پھر شائع ہوئی ہے۔ اس کی سرخی یہ ہے: بیکری ملازم تشدد کیس میں شہباز شریف کے داماد بری خبر کی تصویری نقل ملاحظہ کیجیے:

Read More »

طاہرالقادری سوانگ: حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کا آدھا سچ

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اگوائی میں پارلیمان کے اندراور پارلیمان سے باہر موجود اکثر سیاسی جماعتیں ہر قسم کے غیر آئینی اقدام اور حکومت کو لاحق غیر آئینی خطرات کے خلاف اکٹھی ہوگئی ہیں۔ جیسا کہ پہلے ان جماعتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ کسی حکومت کو گرانے کے لیے یہ ہر اچھا بُرا، آئینی غیر آئینی قدم اٹھانے سے قطعاً نہیں کتراتی تھیں، اس کے برعکس اب ان جماعتوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ گو کہ موجودہ حکومت پرلے درجے کی بدعنوان اورنااہل ہے، لیکن اسے اپنا آئینی وقت پورا کرنا چاہیے، اور آئندہ

Read More »

نجی سکول اور تعلیم کا کاروبار

نوٹ: یہ کالم ’’نجی تعلیم کی ریگولیشن کا مسئلہ‘‘ کے سلسلے کا تیسرا کالم ہے۔ گذشتہ دو کالم، ”نجی سکول اور خیبر پختونخوا حکومت“، اور ”نجی سکول اور تعلیم کا تقدس“ ایک ایسا سیاق وسباق مہیا کرتے ہیں، جس میں تعلیم اور کاروبار، اور بالخصوص تعلیم کے کاروبار سے متعلق تعصبات کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ پیشِ نظر کالم میں ’تعلیم کے کاروبار‘ پر توجہ دی جا رہی ہے۔ جہاں تک کاروبار کے ساتھ جڑے تعصبات کی بات ہے تو ان پر پہلے ہی مختصر بحث ہو چکی ہے۔ کاروبار کے بار ے میں نہ صرف تعصبات، بلکہ غلط فہمیاں کثرت سے

Read More »

انسان کا رومانوی تصور ـ ایک سفر کے تاثرات

دروازے پر بیل ہوئی۔ جا کر دیکھا تو شاہد اور ظفر کار لیے کھڑے تھے: ’گوجرانوالے جانا ہے۔‘ ’میں تو ابھی سو کر اٹھا ہوں۔ نہانا بھی ہے۔‘ نہانے کا وقت نہیں۔ شام سے پہلے واپس آنا ہے۔‘ ’منہ ہاتھ تو دھو سکتا ہوں؟‘ ’ٹھیک ہے۔‘ سفر شروع ہوا تو پتہ چلا پہلے ڈسکے جانا ہے۔ ایک پیر صاحب کے دربار پر حاضری دینی ہے۔ پھر بات کھلتی گئی۔ جی ـ ٹی ـ روڈ پر ایمن آباد موڑ سے ڈسکہ ـ پسرور روڈ پر مڑے تو شاہد کی جیب سے ایک پرچی نکل آئی: ’’ڈسکہ ـ پسرور روڈ؛ کوٹلی باوے

Read More »

نجی سکو ل اور تعلیم کا تقد س

نوٹ: یہ کالم “نجی تعلیم کی ریگولیشن کا مسئلہ” کے سلسلے کا دوسرا کالم ہے۔ جیسا کہ گذشتہ کالم، ”نجی سکول اور خیبر پختونخوا حکومت“ میں ذکر ہوا کہ زر کی آمد کے ساتھ، جب کاروبار میں آسانی پیدا ہوئی تو دوسری اشیا وخدمات کے علاوہ، تعلیمی خدمات کی خرید و فروخت کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ اس کالم میں یہ بحث کرنا مقصود ہے کہ اب جب تعلیم کاروبار بن گئی تو کیا یہ مقدس نہ رہی! اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ جب تعلیمی خدمات کا معاوضہ، جنس کی صورت میں دیا جاتا تھا تو کیا تعلیم، کاروبار نہ تھی۔ صاف بات

Read More »

نجی تعلیم کی ریگولیشن کا مسئلہ ـ نجی سکول اور خیبر پختونخوا حکومت

پاکستان میں ریاست اور حکومتوں کی ناکامی ہمہ گیر ہے۔ تعلیم کا شعبہ بھی اس ناکامی سے مستثنیٰ نہیں۔ کہنے کو ایک خود رو انداز میں سرکاری سکول اور کالج ویران ہوتے گئے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ریاست اور حکومتوں کی مجرمانہ بے توجہی کا نتیجہ تھا، جس نے سرکاری تعلیم پر شہریوں کے اعتماد کو بتدریج زائل کیا۔ اس میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے تحت نجی تعلیمی اداروں کی نیشنالائزیشن نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اس خلا کو ایک خود رو انداز میں ہی نجی سکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں نے پورا کیا۔ پھر وہی ہوا،

Read More »

خان فضل الرحمٰن خان اور ان کا ناول، ’’آفت کا ٹکڑا‘‘

عرض معروض یہ مضمون مارچ 1992 میں لکھا گیا تھا۔ اسے بغرضِ اشاعت مختلف جرائد کو بھیجا گیا؛ پر کہیں چھپ نہ سکا۔ ان جرائد میں ”اوراق“ بھی شامل تھا۔ مرحوم وزیر آغا نے خود جواب عنایت فرمایا۔ ان کا خط ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ انھوں نے لکھا: ”ممنون ہوں کہ آپ نے کرم کیا اور اپنا قیمتی مضمون بھجوایا۔ اوراق کی یہ پالیسی ہے کہ اس میں تازہ کتب پر تبصرے اور مضامین شائع کیے جاتے ہیں یعنی وہ کتب جو پچھلے چار پانچ سال میں شائع ہوئی ہوں۔ جس ناول پر آپ نے لکھا ہے وہ

Read More »

اردو ہو گئی اور بھی آسان!

کیا پاکستان میں اردو زبان کے اور بھی آسان ہو جانے کی بات عجیب نہیں لگتی۔ کیا پاکستان میں اردو بولنے، پڑھنے، لکھنے اور چھاپنے والے ناپید ہو گئے ہیں۔ یا یہاں کسی اور ملک کے لوگ آ کر آباد ہو گئے ہیں، جو اردو سے ناواقف ہیں۔ یقیناً ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں اردو بولنے والے بھی موجود ہیں، اردو پڑھنے والے بھی، اردو لکھنے والے بھی، اور اردو چھاپنے والے بھی۔ بلکہ غالباً پاکستان میں اردو زبان ’لِنگوا فرانکا‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ سو، جب ایسے میں اردو زبان کے اور بھی آسان (ایزی) ہو جانے

Read More »

Killing human beings for their ideas

It’s just inhuman, against the very norms of the human world, that anyone be killed for his / her ideas.  Everyone has ideas, good or bad, and nobody knows whose ideas are good and whose ideas are bad.  Ideas are extensions of thinking beings. And, it’s ideas which have built this human world. It’s ideas which protect us in an unknown universe. Hence, killing human beings for their ideas amounts to killing this human world, our abode! “Kabuliwala’s Bengali wife” was living inside the camp of the enemy and fighting the killers of this human world and her weapons were

Read More »

مہم جوؤں کی بارات؟

پاکستان ابتدا ہی سے اس المیے کا شکار ہے کہ یہاں آئین اورقانون کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی، اور ہر کوئی کسی نہ کسی مہم جوئی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اب تو یہ شک اور خوف پاکستان کے عام شہریوں کے ساتھ ساتھ دانشوروں کے ذہنوں میں بھی اس طرح پیوست ہو گیا ہے کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی مہم جوئی کے منتظر رہنے لگے ہیں۔ یہ ذہن اور یہ ذہنیت بدلنی چاہیے۔ دانشوروں کو سنسنی پھیلانے کے بجائے، آئین اور قانون کے استحکام اور ان پر اعتماد کی بحالی کو تقویت دینی چاہیے۔ کیونکہ آئین

Read More »

خود سُدھاری کا مغالطہ

انسانی دنیا کے فیصلے تصورات کی دنیا میں ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارے تصورات ہوتے ہیں، ویسی ہی ہماری زندگی ہو جاتی ہے۔ مغالطہ بھی تصور ہی کی ایک شکل ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہوتا ہے، جو بظاہر درست معلوم ہوتی ہے، پرغور سے جانچا جائے تو غلط نکلتی ہے۔ خود سدھاری کا مغالطہ بھی پہلی نظر میں درست معلوم ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں اس کی تہہ میں سے کیا نکلتا ہے۔ غیر خواندہ، یا حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی خود سدھاری کے مغالطے کا اظہار کرتے دیکھے جا سکتے ہیں: ہر فرد اپنی جگہ درست ہو جائے

Read More »

کیا پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو پکٹرے گی؟

غالب امکان یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی ایسا نہیں کرے گی۔ کیوں؟ چند ممکنہ اسباب ذیل میں درج کیے جاتے ہیں: 1–  تیسری دنیا میں، جہا ں قانون کی حکمرانی کا فقدان ہوتا ہے، وہاں سیاسی نوع کے قتل سیاسی جماعتوں کا ’’استحقاق‘‘ بن جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے قتل کی صورت میں ریاست کی جانب سے تحقیقات کا عمل خود بہ خود شروع ہو جائے اور اپنے انجام تک پہنچے، مگر سیاسی جماعتیں ایسا نہیں ہونے دیتیں، وہ خود اپنے رہنمائوں کے قتل کی تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ یہ ان کا

Read More »

درباری میڈیا، درباری ایکسپرٹس

بہت سی باتیں متعدد وجوہات کی بِنا پر ناقابلِ فہم ہوتی ہیں۔ بہت سی باتیں اس لیے ناقابلِ فہم ہوتی ہیں کہ ان کے پیچھے جو وجوہات کارفرما معلوم ہوتی ہیں، وہ بودی ہونے کے ساتھ ساتھ مروج سماجی سیاسی گراوٹ اور پست اخلاقی سطح کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہیں۔ گزرے کل یعنی 27 دسمبر کو جس طرح پاکستان میں ایک مرتبہ پھر کم سِن سیاست (کم سِن سیاست کی کہانی: 1857 سے 2012 تک) کی بنیاد رکھی گئی ہے، اور ابھی تک اس پر جو لیپا پوتی کی جا رہی ہے اور جو بیل بوٹے کاڑھے جا رہے ہیں، وہ ناقابلِ فہم

Read More »

شاہ خرچیاں اور مینڈیٹ کا مطلب

پنجاب میں لیپ ٹاپ کا لنگر بنٹنا ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کی ریس میں، سندھ اور خیبر پختون خواہ کی حکومتیں بھی دیگیں چڑھانے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ مگر پنجاب تو پنجاب ہے۔ یہ پھر سبقت لے گیا۔ یہاں اب ایک اور بھنڈارے کی تقسیم کا آغاز ہو گیا ہے۔ جمعرات، 29نومبر کو ”حاکمِ پنجاب،“ میاں شہباز شریف نے ایک نئی مہم، ”ہیلمیٹ فار آل“ کا افتتاح کیا۔ اس دان کے لیے جمعرات کا دن ویسے بھی سعد ہے۔ لاہور میں مال روڈ پر اس مہم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا

Read More »

پرانے کالم: ایک ایف ـ آئی ـ آر کی قیمت

یہ 1998 کی بات ہے کہ ایک کتاب کی تلاش کے سلسلے میں اردو بازار میں ’’دوست ایسوسی ایٹس‘‘ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ کتابوں کے پبلشر اور تقسیم کار تھے۔ یہاں میں جناب ادریس اعوان کے ساتھ گیا تھا، جو خود ’’دارالکتاب‘‘ کے نام سے اردو بازار میں اشاعت کا کام کرتے تھے۔ ان دنوں ’’دوست ایسوسی ایٹس‘‘ کے انچارج جناب شعیب عادل ہوا کرتے تھے، جو اب ماہنامہ ’’نیا زمانہ‘‘ شائع کرتے  ہیں۔ آہستہ آہستی ان سے اچھے مراسم ہو گئے۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کسی اخبار وغیرہ میں لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے

Read More »

پاکستان کے مجرم – سیاسی زاویہ

اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نظمِ حکومت کے حوالے سے ذمے داری سیاست دانوں پر آتی ہے۔ خود سیاست دان یہی دعویٰ کرتے ہیں۔ اور یہی چیز سیاست ہے۔ یعنی نظمِ حکومت کو بہتر انداز میں کیسے منظم کیا اور چلایا جائے۔ جب پاکستان بن گیا تو اس کے لیے برطانیہ سے ملنے والے نظمِ حکومت، یعنی گورمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 سے ہٹ کر، کیا سیاست دان کوئی اور نظمِ حکومت بنا سکے۔ کتنے برس تو آئین ہی نہیں بن سکا۔ جب بنا تو اس کی کیا درگت بنی۔ پھر بنا، پھر مذاق بنا، پھر

Read More »

زندگی سے محبت کی تاریخ

خیال کریں کہ قدیم انسان زندگی کو کیسے سمجھتا، اور اس کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہو گا۔ زندگی کی قدر و قیمت کا احساس پیدا ہونے میں کچھ وقت تو لگا ہو گا۔ پہلے پہل تو اسے اپنے وجود کو زندگی سے علاحدہ کر کے سمجھنے میں مشکل پیش آئی ہو گی۔ جیسے حیوان زندہ تو ہوتے ہیں، مگر زندگی کا ادراک نہیں رکھتے۔ کچھ اسی طرح کی صورت ابتدائی انسانوں کے ساتھ رہی ہو گی۔ پھر جوں جوں عقل و شعور کو ترقی ملی، انسان خود کو ایک زندہ ہستی کے طور پر جاننے اور پہچاننے لگا

Read More »

پاکستان کے مجرم

’پاکستان کے اصل مجرم سیاست دان ہیں۔‘ یہ میں نے کیا لکھ دیا۔ ہر کوئی سیاست دانوں کو ہی قصوروار گردانتا ہے۔ انھیں ہی لعن طعن کرتا رہتا ہے۔ یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔ اب دیکھیں نہ ایک رپورٹ، ”نمائندگی بِنا ٹیکس دہندگی“ چھپ گئی ہے کہ سیاست دان ٹیکس نہیں دیتے۔ اور سیاست دان ہی نہیں، وہ سیاست دان بھی، جو شہریوں کے ووٹ سے منتخب ہو کر پارلیمینٹ میں جاتے ہیں، اور پھر وہاں بیٹھ کر ان شہریوں پر نت نئے ٹیکس لاگو کرتے ہیں، خود ٹیکس دینا تو کجا، ٹیکس نمبر تک لینا گوارا نہیں کرتے۔

Read More »

حکومت میلہ ـ ایک نظم

میلہ لگا ہوا ہے حکومت کے نام پر میں تیرے کام کرتا ہوں، تو میرے کام کر تجھ کو خودی سے اور طریقے سے کام کیا سب کچھ تو پیچ ڈال، کھرے اپنے دام کر بیٹھا ہے تیرے سر پہ ہما، تو ہے بادشاہ یہ عدلیہ، یہ میڈیا، ان کو غلام کر صبح کو عہد، شام کو پامال کر اسے پیدا نیا زمانہ، نئے صبح و شام کر ہاں تو بھی جھول عظمیٰ وزارت کا جھولنا جو چیختے ہیں چیخنے دے، اپنا کام کر دنیا نے ابر و آب سے بجلی کشید کی بجلی سے زرکشید کا تو انتظام کر

Read More »

ثقافتی اجارہ داری

جب اشرافی طبقات، ریاست پر قابض ہوجائیں، جیسا کہ پاکستان میں ہوا ہے، تو وہ زندگی کے ہرشعبے پر اپنا غلبہ قائم کر لیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں، افراد کا ہر وہ گروہ، جو خود کو کسی نہ کسی طور، اشرافیہ کے ساتھ منسلک سمجھتا ہے، زندگی کا یہی اسلوب اختیار کر لیتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مراد یہ کہ ایسے گروہ، جہاں اورجس شعبے میں بھی موجود ہیں، اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔ وہ خود کو ایک ایسا گروہ تصور کرتے ہیں، جو مافیا کی طرح بند اور مکمل ہے۔ یہ گروہ

Read More »

سعید اقبال واہلہ کے لیے دو نظمیں

سعید اقبال واہلہ میرے بہت عزیز دوست تھے۔ ہماری دوستی پنجاب یونیورسیٹی کے شعبۂ فلسفہ میں ہوئی، جہاں ایم– اے فلسفہ کرتے ہوئے کچھ اور بہت گہری دوستیاں قائم ہوئیں۔ وہ سول سروس میں چلے گئے، اور میں پہلے پی ٹی وی اور پھر تعلیم سے وابستہ ہوا۔ ابھی بڑی عید سے قبل 25 اکتوبر کو ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ کافی عرصے بعد تبدیل ہو کر لاہور آ گئے تھے۔ 8 نومبر کو صبح ان کے سکریٹری کے کئی فون آئے، وہ 15 نومبر کے دن شام ساڑھے پانچ بجے تمام دوستوں کو ایک دعوت پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔ اسی شام کوئی سوا پانچ

Read More »

مملکتِ اشرافیہ پاکستان ۔ ایک اور مبارک باد

وہ کہانی یاد کیجیے جو ایک گذشتہ پوسٹ: ’’مملکتِ اشرافیہ پاکستان، مبارک ہو!‘‘ میں بیان ہوئی ہے۔ اس کہانی میں ’’اوگرا‘‘ کے جن سابق سربراہ کا ذکر آیا تھا، اور جن کی حفاظت وفاقی حکومت کر رہی تھی، اور غالباً دوسری صوبائی حکومتیں بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوں گی، اور نیب اور پولیس جنھیں گرفتار کرنے لیے اپنی ’’آنیاں جانیاں‘‘ دکھا رہی تھیں، انھیں بالآخر دبئی روانہ کر دیا گیا ہے۔ 3 دسمبر کے اخبارات اس لکیر کو پیٹتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ تفصیل ملاحظہ کرنے کے لیے اردو اور انگریزی کے اخبارات پر نظر ڈالیے۔ یہاں

Read More »