ایک پریشان خیالی تو یہ ہے کہ پاکستانی فسطائیت، فسطائیت نہیں، اور یہ کہ، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں، فسطائیت تو ہٹلر کی فسطائیت تھی۔
یا شاید وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی فسطائیت کو ہٹلر جیسی فسطائیت ہونا چاہیے۔
فسطائیت کی تعریف اور اس کے بارے میں درسگاہی مطالعات سے قطع نظر، فسطائیت کو ایک رویے اور انداز ہائے نظر اور طرزِ عمل کے طور پر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
اس کی تہہ میں، کہیں نہ کہیں، خود پارسائیت کا زعم کلبلا رہا ہوتا ہے۔ یہ ہر کسی کو غلط اور گمراہ گردانتی ہے۔ یہ نہ تو تاریخ کو تسلیم کرتی ہے، نہ انسانی تہذیب کی تحصیلات کو۔ یہ کسی اصول کو نہیں مانتی، نہ ہی اقدار کا پاس کرتی ہے۔ یہ خود کو ایک اصول، معیار اور قدر کے طور پر پیش اور نافذ کرتی ہے۔
یعنی یہ خود ایک پیمانہ ہوتی ہے، جس پر دوسروں اور دوسری چیزوں کو جانچا اور پرکھا جائے۔
ایک اور اہم چیز، جسے فسطائیت کا تاریخی پہلو قرار دیا جا سکتا ہے، اس کی قوم پرستی یا قومیت کا اصول ہے۔ یہ اصول نسل پرستی یا نسلیت کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔
اور زیرِ بحث معاملے کے ضمن میں، اس سے متعلق ایک اور ضروری بات یہ ہے، اور یہ بھی اس کے تاریخی پہلو سے جڑی ہوئی ہے، کہ فسطائیت اگر بگاڑ اور خرابی لاتی ہے، تو کچھ نہ کچھ ’’بناتی‘‘ بھی ہے۔
متذکرۂ صدر دونوں پہلو، ایڈولف ہٹلر اور پھر اشتراکیت کے مظاہر میں نمایاں طور پر کارفرما دیکھے جا سکتے ہیں۔
گو کہ اشتراکیت نے جو کچھ تعمیر کیا، وہ ہٹلر کے مقابلے میں، کہیں زیادہ ہے اور قابلِ رشک بھی ہے۔
مگر جہاں تک ہٹلر کا تعلق ہے، تو اس نے اپنے لوگوں میں ’’عمل‘‘ کی ایک روح پھونک دی تھی۔ جیسے کہ انھیں بیدار کر دیا تھا۔
ہٹلر کی سماجی اور معاشی کامیابیوں نے لوگوں کو اس کے گرد اکٹھا کیا۔ اس کے دورِ حکومت میں بے روزگاری فی الواقع ختم ہو چکی تھی۔ عام لوگ خوش حال ہو رہے تھے۔ نئے سماجی ادارے وجود میں آ رہے تھے۔ اور بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جرمن تفاخر اور عزت و توقیر بہت بڑھ چکی تھی۔
اور ہٹلر کی جنگی مہموں سے تو زمانہ واقف ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستانی فسطائیت نے کیا کامیابیاں حاصل کیں۔
عیاں ہے کہ بالخصوص جولائی 2018 کے بعد سے، جب پاکستان تحریکِ انصاف کو حکومت میں لایا گیا، ہر شعبے میں پسپائی اور شکست و ریخت واقع ہوئی ہے۔ جیسے کہ زوال صادر ہو گیا ہو۔
گو کہ تحریکِ انصاف کا فسطائی سفر 2011 کے اواخر سے شروع ہو چکا تھا، اور یہ معاشرے اور ریاست سمیت ہر چیز کے تار و پود کو بکھیر رہی تھی، اور اس کے اس سفر کا نقطۂ عروج 2014 کا دھرنا تھا۔ مگر حکومت میں آنے کے بعد اس کی فسطائی مہمات زیادہ شدید ہو گئیں۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ تحریکِ انصاف جو پاکستانی فسطائیت کی نمائندہ جماعت ہے، اب تک کچھ بنا کر نہیں دکھا سکی۔ کچھ بھی۔ تین برس ہونے کو آ رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں کہ کچھ ہوتا نظر آ رہا ہو، یا کہیں دور کسی چیز کے بننے کا کوئی شائبہ ہی تشکیل پا رہا ہو۔
بلکہ حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔
مراد یہ کہ خاصے یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی فسطائیت دوسری فسطائیتوں کے مقابلے میں نہایت نااہل، ناقابل اور نالائق ہے۔ یہ کچھ بنا کر دکھانے سے قاصر ہے۔ یہ محض تباہی کی علامت ہے۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے نقصان برائے نقصان پر یقین رکھتی ہے۔
یعنی جب یہ حکومت میں نہیں تھی، تب بھی اور اب جب حکومت میں ہے، تو اب بھی، زیادہ شد و مد سے صرف بگاڑ، خرابی اور تباہی لا رہی تھی۔ اور خاصے وثوق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں مزید بگاڑ، خرابی اور تباہی لائے گی۔
ایک وضاحت: میں کسی بھی قسم کی فسطائیت یا اشتراکیت کے حق میں نہیں۔ بلکہ ان کے خلاف صف آرا ہوں۔ لہٰذا، اوپر فسطائیت کی کامیابیوں کے بیان سے یہ مفہوم اخذ نہ کیا جائے کہ میں انھیں مثبت اور تعمیری سمجھتا اور قبول کرتا ہوں۔ عیاں رہے کہ انھیں صرف پاکستانی فسطائیت کے ساتھ موازنے کی غرض سے پیش کیا گیا۔ میں ان ’’تعمیری چیزوں‘‘ کو بھی قبول نہیں کرتا، جنھیں یہ وجود میں لاتی یا لا سکتی ہے۔ اور ایسے کسی بھی عمل کو کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں سمجھتا، جو ایسی ’’تعمیری چیزوں‘‘ کو وجود میں لانے کے ضمن میں، بعض صورتوں میں، قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے، یا سمجھا جا سکتا ہو۔