۔ پہلی بات یہ کہ میرے پیشِ نظر پاکستان ہے۔
۔ اب آ جاتے ہیں، سوال کی طرف۔
۔ سوال بظاہر سادہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر جیسا کہ سوال خود کچھ نہیں ہوتا، جس نوعیت کے جواب کی طرف یہ اشارہ کر رہا ہوتا ہے، وہ چیز اس کی اہمیت کا تعین کرتی ہے۔
۔ اس مفہوم میں سوال مشکل قطعاً نہیں، ہاں، اس کا جواب نہایت پیچیدہ اور طویل ضرور ہو گا۔
۔ مگر چونکہ یہ ایک مختصر تحریر ہے، لہٰذا، مختصر جواب پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔
۔ یعنی جو چیزیں اور باتیں اس سوال کے جواب کی تشکیل کرتی ہیں، ان کی طرف محض اشارہ کیا جائے گا۔
۔ انسان تصورات کا مجموعہ ہے۔ اس کی زندگی کی قوتِ محرکہ تصورات ہیں۔
۔ مراد یہ کہ یہ اس طرح کی زندگی گزارتا ہے، یا گزارنا چاہتا ہے، جو اس کے تصورات سے میل کھاتی ہو۔
۔ اس ضمن میں، یہ کوئی ضروری امر نہیں کہ وہ اس بات کا شعور رکھتا ہے یا نہیں کہ وہ کیسی زندگی گزار رہا ہے، یا گزارنا چاہتا ہے۔ وہ ہر دو صورتوں میں ایسا ہی کر رہا ہوتا ہے۔
۔ یا فرض کیجیے اگر کوئی فرد یہ کہتا ہے کہ وہ مطمئن زندگی گزار رہا ہے، تو غالباً وہ اپنی اس مطمئن زندگی کو بہتر یا زیادہ بہتر بنانے کے بارے میں اگر کوشش نہیں کرتا ہو گا، تو سوچتا ضرور ہو گا۔
۔ یعنی قریب قریب ہر فرد کو اتنا خیال ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ جیسی زندگی گزار رہا ہے، وہ ایسی نہیں، کسی اور طرح کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔
۔ واضح رہے کہ وہ زندگی کسی اور کی زندگی کی نقل بھی ہو سکتی ہے۔
۔ مختصر یہ کہ انسان اپنے تصورات کو جیتا ہے، اور جینا چاہتا ہے۔
۔ باالفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تصورات ہی ہیں، جو اس کی زندگی کو بناتے یا بگاڑتے ہیں۔
۔ ہر فرد ایک خاص وقت اور مقام پر پیدا ہوتا ہے۔
۔ کچھ چیزیں اس کی فطرت میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہیں۔
۔ پھر، مادی حالات و اشیا کے علاوہ، اسے تصورات کا ایک تام جھام بھی بنا بنایا ملتا ہے۔
۔ یعنی وہ جس مقام پر پیدا ہوتا ہے، فی زمانہ، وہ کوئی آبادی، کوئی شہر، کوئی معاشرہ، کوئی ملک ہوتا ہے۔
۔ وہ جس وقت پر پیدا ہوتا ہے، وہ آبادی، وہ معاشرہ، وہ ملک، اس وقت مادی و فکری ترقی کے ایک خاص مرحلے پر ہوتے ہیں۔
۔ یوں وہ ایک مخصوص مادی و فکری وقت اور مقام پر جنم لیتا ہے۔
۔ اس سے بھی زیادہ اہم وہ خاندان ہے، جس میں اس کی پیدائش ہوتی ہے۔
۔ اور وہ خاندان بھی مادی و فکری ترقی کے ایک خاص مرحلے پر ہوتا ہے۔
۔ اب ہمارا یہ فرد، اگر یہ پیدائشی طور پر ایک نابغہ نہ ہوا، تو یہ فطری اور غیرشعوری طور پر انھی تصورات کو قبول کر لے گا، اس کا خاندان جن کا حامل ہو گا۔
۔ وہ اسی مادی ماحول اور انھی اشیا کے درمیان رہے گا، اس کا خاندان جن کے درمیان رہ رہا ہو گا۔
۔ جیسا کہ نفسیات بتاتی ہے، یہی وہ پہلا پالنا ہے، جہاں اس کے ابتدائی رویے، تعصبات، تصورات، نظریات، وغیرہ، تشکیل پائیں گے۔
۔ جب وہ گھر سے باہر نکلے گا، گلی محلے میں جائے گا، سکول، کالج، یونیورسیٹی، وغیرہ، جائے گا، اس کا سابقہ نئے نت نئے لوگوں سے پڑے گا۔
۔ یوں وہ نئے اور مختلف رویوں، تعصبات، تصورات، نظریات، وغیرہ، سے آشنا ہو گا۔
۔ یہاں یہ واضح رہے کہ تعصبات کے ضمن میں ضروری نہیں کہ وہ انھیں تعصبات ہی سمجھتا ہو، یعنی وہ انھیں اپنے درست تصورات اور نظریات بھی سمجھ سکتا ہو گا، جیسا کہ پاکستان میں بالعموم بیشتر لوگوں کا معاملہ ہے۔
۔ اب جن نئے اور مختلف رویوں، تعصبات، تصورات، نظریات، وغیرہ، سے اس کا سامنا ہو گا، ان میں سے کچھ کو، ہو سکتا ہے، وہ قبول کرے، اور کچھ کو رد کرے۔ یا جیسی بھی صورت ہو۔
۔ اس سے آگے چل کر، جب وہ کسی نوکری، کاروبار، کام، وغیرہ، سے منسلک ہو گا، تو یہاں بھی دوسرے نئے اور مختلف لوگوں سے اس کا میل جول ہو گا۔ اور ہو سکتا ہے، ان کے رویے، تعصبات، تصورات، نظریات، وغیرہ، اس میں ایک کشمکش پیدا کریں۔ یا جیسی بھی صورت ہو۔
۔ یا اگر وہ کسی طور اپنے شہر، یا ثقافتی علاقے، یا صوبے سے باہر نکلتا ہے، یا ملک سے باہر جاتا ہے، تو یہاں بھی اسے کچھ ایسی ہی صورتِ حال پیش آئے گی۔
۔ یوں، مختلف قسم کے رویوں، تعصبات، تصورات، نظریات، وغیرہ، کے ساتھ کشاکش اور کشمکش کے نتیجے میں، ممکن ہے کہ، اس کے اپنے رویوں، تعصبات، تصورات، نظریات، وغیرہ، میں کچھ یا زیادہ تبدیلی پیدا ہو، یا وہ یکسر تبدیل ہو جائیں۔ یا جیسی بھی صورت ہو۔
۔ یہ تبدیلی کسی بھی نوع کی ہو سکتی ہے، منفی یا مثبت، یا ہر دو صورتوں میں انتہاپسندانہ۔
۔ اوپر جو رویوں، تعصبات، تصورات، نظریات، وغیرہ، کا ذکر آیا ہے، اس میں جذبات کا اضافہ لازم ہے۔
۔ اہم تر جذبات یہ ہو سکتے ہیں: ایک طرف، ناپسندیدگی، حسد، جلن، انتقام، نفرت، مایوسی، قنوطیت، سنکی پن، اذیت پسندی، سادیت، مساکیت، منفیت، نفی پسندی، شخصیت دشمنی، وغیرہ۔
۔ دوسری طرف، پسندیدگی، محبت، شخصیت پرستی، مثبتیت، لذتیت، خودلذتیت، وغیرہ۔
یقینا، یہ دونوں فہرستیں نامکمل ہیں، کیونکہ انسانوں میں لامحدود تنوع موجود ہے۔
۔ یہ تمام چیزیں مل ملا کر، ایک فرد اور اس کی شخصیت کو بناتی ہیں۔
۔ تاہم، ابھی پورا ایک جہاں باقی ہے۔
۔ جہاں جس وقت اور جس مقام پر کوئی فرد جنم لیتا ہے، وہاں کوئی نہ کوئی ریاست، حکومت، سیاسی جماعتیں، سیاسی گروہ، اور سیاست دان بھی موجود ہوتے ہیں۔
۔ اسی طرح، وہاں ہر قسم کی سیاست بھی موجود ہو گی۔ جیسے کہ اقتداری، عسکری، نسلی، لسانی، جغرافیائی، صوبائی، علاقائی، ثقافتی، گروہی، مذہبی، فرقہ وار، وغیرہ۔
۔ دائیں بازو کی سیاست اور بائیں بازو کی سیاست۔
۔ اور پھر قومی اور بین الاقوامی مفادات کی سیاست بھی چل رہی ہو گی۔
۔ یعنی یہ متنوع سیاست بھی اس کی شخصیت کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتی ہو گی۔
۔ بلکہ یہ وہ تمام چیزیں ہیں، جو مشترک و متفرق طور پر اس کے رویوں، تعصبات، تصورات، نظریات، وغیرہ، کو متشکل کرتی ہوں گی۔
۔ یوں اس کے سیاسی رویے، سیاسی تعصبات، سیاسی تصورات، سیاسی نظریات، وغیرہ، پروان چڑھتے ہوں گے۔
۔ اسی طرح، اس کے منفی یا/اور مثبت سیاسی جذبات بھی تشکیل پاتے ہوں گے۔
۔ پھر یہ کہ اس وقت اور مقام پر ریاست اور حکومت کی نوعیت کیا ہوتی ہے، مختلف ریاستی ادارے، جیسے کہ عدلیہ، پولیس، وغیرہ، کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کا کردار بھی کسی فرد کے شخص اور شخصیت کی تشکیل میں اہم ہو گا۔
۔ اور ہاں، اس ملک میں فوج کیا کر رہی ہے۔ آیا وہ اپنے آئینی کردار تک محدود ہے، یا ان آئینی حدوں سے باہر نکل کر سیاسی کھیل کھیل رہی ہے۔ یہ چیز بھی نہایت اہم ہو گی۔
۔ یعنی یہ چیزیں بھی اس کے سیاسی رویوں، سیاسی تعصبات، سیاسی تصورات، سیاسی نظریات، سیاسی جذبات، وغیرہ، کی تکشیل میں اپنا کردار ادا کرتی ہوں گی۔
۔ اور اس طرح، اس کا سماجی اور سیاسی ماحول تشکیل پاتا ہو گا۔
۔ مختصر یہ کہ ایک طرف اس کے رویے، تعصبات، تصورات، نظریات، جذبات، وغیرہ، ہوں گے۔ اور دوسری طرف یہ ماحول ہو گا، جس میں، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اس کے گھر سے لے کر ملک سے باہر تک کا ماحول شامل ہے۔ اور پھر ان کے درمیان تعامل بھی ہو گا، اور کشاکش اور کشمکش بھی۔
۔ مراد یہ کہ ایک جانب یہ ماحول ہو گا، جو اس کے سماجی رویوں، سماجی تعصبات، سماجی تصورات، سماجی نظریات، سماجی جذبات، وغیرہ، کی تشکیل کرے گا۔ اور پھر اس کے سماجی رویے، سماجی تعصبات، سماجی تصورات، سماجی نظریات، سماجی جذبات، وغیرہ، اس سماجی ماحول کی تشکیل کریں گے۔
۔ اسی طرح، دوسری جانب سیاسی ماحول ہو گا، جو اس کے سیاسی رویوں، سیاسی تعصبات، سیاسی تصورات، سیاسی نظریات، سیاسی جذبات، وغیرہ، کی تشکیل کرے گا، اور پھر جواباً اس کے سیاسی رویے، سیاسی تعصبات، سیاسی تصورات، سیاسی نظریات، سیاسی جذبات، وغیرہ، اس کے سیاسی ماحول کی تشکیل کریں گے۔
۔ یہ دونوں ماحول، یعنی سماجی اور سیاسی ماحول، باہم، نہ صرف اس کے سماجی مقدر کا تعین کریں گے، بلکہ اس کے سیاسی مقدر کا تعین بھی کریں گے۔
۔ یہ بھی عیاں ہے کہ یہ دونوں ماحول ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو بناتے یا بگاڑتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی تشکیل و تعیین کرتے ہیں۔
۔ یعنی سماجی رویے، سماجی تعصبات، سماجی تصورات، سماجی نظریات، سماجی جذبات، وغیرہ، اگر سیاسی رویوں، سیاسی تعصبات، سیاسی تصورات، سیاسی نظریات، سیاسی جذبات، وغیرہ، کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، تو سیاسی رویے، سیاسی تعصبات، سیاسی تصورات، سیاسی نظریات، سیاسی جذبات، وغیرہ، بھی سماجی رویوں، سماجی تعصبات، سماجی تصورات، سماجی نظریات، سماجی جذبات، وغیرہ، کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ بعض اوقات سماجی ماحول، سیاسی ماحول کی تشکیل کر رہا ہوتا ہے، اور سیاسی ماحول پر اثرانداز ہونے والے، یعنی سیاست دان، سیاسی جماعتیں، سیاسی گروہ، دانشور (یوں پاکستانی معاشرے میں دانشوروں کے کردار کا تعین بھی ہوتا ہے!)، وغیرہ، یا تو غیرشعوری اور غیرارادی طور پر، یا پھر شعوری اور ارادی طور پر، اسے تبدیل نہیں کرنا چاہتے اور تبدیل کرتے بھی نہیں، یا اسے تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے، یا بہت کم کچھ کرتے ہیں۔ کیونکہ اس سماجی ماحول اور اس کے تسلسل میں ان کی بقا منحصر ہوتی ہے۔
۔ جیسا کہ پاکستان کا معاملہ ہے۔ یہاں کا سماجی ماحول، سیاسی ماحول کی تشکیل کر رہا ہے۔ یہی چیز ہمارے سیاسی مقدر کا تعین کرتی ہے۔
۔ یعنی ہمارے سماجی رویے، سماجی تعصبات، سماجی تصورات، سماجی نظریات، سماجی جذبات، وغیرہ، ہمارے سیاسی رویوں، سیاسی تعصبات، سیاسی تصورات، سیاسی نظریات، سیاسی جذبات، وغیرہ، یا ہمارے سیاسی ماحول کا تعین کر رہے ہیں۔
۔ اور جواباً ہمارے سیاسی رویے، سیاسی تعصبات، سیاسی تصورات، سیاسی نظریات، سیاسی جذبات، وغیرہ، ہمارے سماجی ماحول یعنی ہمارے سماجی رویوں، سماجی تعصبات، سماجی تصورات، سماجی نظریات، سماجی جذبات، وغیرہ، یعنی ہمارے سماجی ماحول کو تقویت دے رہے ہیں۔
۔ یہ دونوں ماحول، ایک دوسرے کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ دونوں طرف سے تبدیلی کی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آتی۔ دونوں ایک دوسرے کی خوراک بنے ہوئے ہیں۔
۔ یہ ہے وہ منطق جس سے ہمارے سماجی اور سیاسی مقدر کا تعین ہو رہا ہے، اور یہی وہ منطق ہے، جو بتاتی ہے کہ ہمارا سماجی اور سیاسی مقدر بدل کیوں نہیں رہا۔ اور یہ بھی کہ بدلتا کیوں نہیں۔
۔ یہاں ایک تیسری چیز بھی پیشِ نظر رکھیے۔ یہ تعلیم، میڈیا، مختلف نظریات کے فروغ سے متعلق ادارے، وغیرہ، یعنی خیالات، تصورات، نظریات، وغیرہ، کا کاروبار ہے۔ یا اسے نظریاتی ماحول کہہ لیجیے۔ یہ بھی ہمارے سماجی و سیاسی مقدر کی تشکیل میں یکساں یا بعض صورتوں میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
۔ یہاں اب آخر میں کچھ بات اس چیز پر کہ ہمارا سماجی اور سیاسی مقدر کیونکر بدل سکتا ہے۔
۔ پہلے تو یہ واضح رہے کہ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ کسی فرد کی سماجی اور سیاسی شخصیت کی تشکیل کیسے اور کیونکر ہوتی ہے۔ مراد یہ کہ بالعموم اس کی سماجی شخصیت کی تشکیل اس کا سماجی ماحول کرتا ہے۔ اسی طرح، بالعموم اس کی سیاسی شخصیت کی تشکیل اس کا سیاسی ماحول کرتا ہے۔ اس میں نظریاتی ماحول کو بھی شامل سمجھیے۔
۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ افراد کی اکثریت اپنے سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کی پیداوار ہوتی ہے۔ یعنی ان کی سماجی اور سیاسی شخصیت کی تشکیل، ان کا سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کرتا ہے۔
۔ معنوی طور پر، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارا سماجی اور سیاسی مقدر اس لیے نہیں بدلتا، کیونکہ جیسا سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول ہوتا ہے، اسی طرح کے افراد کی تشکیل ہوتی رہتی ہے۔ اور یہ لوگ اپنے سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کے ساتھ مانوس اور منسلک ہو چکے ہوتے ہیں، اور ایک مفہوم میں، وہ ان تینوں طرح کے ماحول کے ساتھ نفسیاتی، جذباتی اور وجودی وابستگی کے حامل بن جاتے ہیں۔ اور اگر یہی چیز حقیقت ہے، اور جیسا کہ پاکستان کے حالات سے عیاں ہے کہ معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، تو اس ماحول کو تبدیل کرنا تو دور رہا، وہ اسے تبدیل کرنے کے بارے میں کیوں سوچیں گے۔ بلکہ بالعموم وہ اسے مضبوط و مستحکم کرنے پر زیادہ متوجہ رہتے ہیں۔
۔ یہاں یہ بات بھی عیاں رہے کہ اس تحریر میں ایک نظری ڈھانچے اور اس کی تشکیل کو بیان کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ خود ان ڈھانچوں کے کیفیتی بیان سے گریز برتا گیا ہے۔ تاکہ کہیں یہ نظری ڈھانچہ بھی سماجی و سیاسی مقدر (کی افراط و تفریط) کا حصہ نہ سمجھ لیا جائے، جنھیں یہ نظری ڈھانچہ غیرجانبداری سے بیان کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔
۔ لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سماجی ماحول، سیاسی ماحول کی تشکیل کرتا ہے، اور سیاسی ماحول، سماجی ماحول کی تشکیل کرتا ہے، اور نظریاتی ماحول بھی اس میں اپنا حصہ ڈالتا ہے، تو پھر تبدیلی کیسے، کیونکر اور کہاں سے شروع ہو سکتی ہے، یا شروع ہو گی۔ یا ہو گی ہی نہیں۔
۔ بلکہ جس طرح یہاں اس معاملے کو پیش کیا گیا ہے، اس میں تو تبدیلی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ ایک گھن چکر ہے، جو چل رہا ہے، چلتا رہے گا، اور ہم یہ سوال پوچھتے رہیں گے کہ ہمارا سماجی اور سیاسی مقدر کب بدلے گا۔ بدلے گا بھی یا نہیں۔
۔ اس مرحلے پر، یہاں جس بات کو مدِ نظر رکھنا اہم ہے، وہ یہ ہے کہ انسان، محض ایک ایسی ہستی نہیں، جسے اس کا ماحول جس طرح سے اور جس طرح کا بنا دے، وہ ویسا ہی بن جائے۔
۔ تاریخِ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا کہ انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا، تو وہ آج بھی ابتدائی قدیمی انسان کی بود و باش کا حامل ہوتا۔
۔ ذرا انسانی تاریخ کے قدیمی دور کے رہن سہن کا خیال کیجیے اور آج کے انسانی معاشرے کا خیال کیجیے، زمین و آسمان کا فرق تو نہایت معمولی فرق ہے۔ یعنی اگر تاریخ کی گواہی موجود نہ ہو، تو دونوں معاشروں کا آپس میں کوئی تعلق بنتا نظر نہیں آتا۔ یعنی دونوں کے درمیان اتنا بُعد پیدا ہو چکا ہے۔
۔ مراد یہ کہ انسان نے، خود ایک ماحول کی پیداوار ہوتے ہوئے، اپنے ماحول کو بدلا اور بالکل ایک نئے ماحول کو پیدا کیا۔ اس مفہوم میں انسان وہ ہستی ہے، جسے اپنے سماجی اور سیاسی مقدر کو بنانے اور بدلنے والا بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور بگاڑنے والا بھی۔ اور نہ بدلنے والا بھی۔
۔ یعنی انسان میں یہ جو شعور ہے، اور یہ جو عقل و دانائی ہے، یہ چیزیں اسے اس قابل بناتی ہیں، اور دوسری انواع سے متمیز بھی کرتی ہیں جو اپنے ماحول کی اسیر بنی رہتی ہیں، کہ وہ اپنے ماحول یعنی اپنے ان سماجی و سیاسی رویوں، تعصبات، تصورات، نظریات، جذبات، وغیرہ، اور اپنے نظریاتی ماحول سے اوپر اُٹھے اور خود کو ان سے علاحدہ کرے، انھیں سمجھے، ان کی تحلیل کرے، اور ان کی اچھائی برائی اور ان کے صحیح غلط کو پر کھے، اور پھر انھیں تبدیل کرے۔
۔ یوں کچھ افراد اسی سماجی ماحول، سیاسی ماحول اور نظریاتی ماحول کی پیداوار ہوتے ہوئے، اسی سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کو قبول نہیں کرتے، کیوںکہ وہ اس کی برائی کو اور اس کے غلط کو سمجھتے ہیں، اور اسی لیے اسے تبدیل کرنے پر ُتل جاتے ہیں۔
۔ یوں یہی وہ چند لوگ ہوتے ہیں، جو سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کو تبدیل کرنے کے مشن کو سنبھالتے ہیں۔ یہ اس سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کو برقرار رکھنے کا ذریعہ نہیں بنتے۔ یہاں اس ضمن میں کہ دانشوروں کا کیا کردار ہونا چاہیے، یہ چیز بھی چھپی ہوئی ہے۔
۔ اس ضمن میں ایک اور بات صاف کرنا ضروری ہے۔ اسے ایک مسلمہ حقیقت سمجھا جاتا ہے کہ یہ محض چند ایک افراد ہوتے ہیں، جو سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کو تبدیل کرنے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ یا یہ کوئی ایک فرد ہوتا ہے، کیونکہ یہی چند افراد، (یا ایک فرد)، اس بات کو سمجھ رہے ہوتے ہیں، کہ ان کے سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول، یعنی ان کے رویوں، تعصبات، تصورات، نظریات، جذبات، وغیرہ، میں کہاں کہاں کیا کچھ برا ہے اور کیا کچھ غلط ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ افراد کی باقی اکثریت اس بات کو نہ تو سمجھ رہی ہوتی ہے کہ کہاں کیا کچھ برا اور کیا کچھ غلط ہے، اور نہ ہی وہ اسے تبدیل کرنے کے بارے میں سوچتی ہے۔ اور نہ ایسا کرنے کے لیے آگے بڑھتی ہے۔
۔ میرے خیال میں یہ ایک اشرافی اور گمراہ کن تصور ہے۔ یہ تصور اس احساس پر مبنی ہے کہ بس چند ایک افراد چنیدہ ہیں، یعنی یہ لوگ چنے ہوئے لوگ ہیں، یا انھیں چن لیا گیا ہے، اور باقی افراد رعیت اور تلچھٹ کی طرح ہیں، جو نہ تو شعور رکھتے ہیں، نہ عقل و دانائی۔ یہ اشرافیہ کی علمیاتی برتری کا احساس ہے۔ اور سماجی و سیاسی حقیقت کو چند افراد کے نقطۂ نظر سے دیکھتا اور سمجھتا ہے، اور تبدیلی کو انھی چند افراد (یا ایک فرد) سے منسوب کرتا ہے۔
۔ اس ضمن میں، میں اپنے استدلال کو اس کے آخری سرے سے پکڑوں گا۔ یعنی یہ استدلال کہ سماجی و سیاسی حقیقت تمام افراد کے سماجی و سیاسی رویوں، تعصبات، تصورات، نظریات، جذبات، وغیرہ، سے تشکیل پاتی ہے۔ میرے استدلال کا آخری سرا یہ ہے کہ سماجی و سیاسی تبدیلی جب بھی واقع ہوتی ہے، تو اس میں افراد کی اکثریت شامل ہوتی ہے، یا اس تبدیلی کو اکثریت کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔ (یقیناً ایسا تو شاید ہی کہیں ہوا ہو، یا ہوتا ہو، کہ اس طرح کے کسی عمل میں سو کے سو افراد شریک ہوں۔)
۔ اب اس آخری سرے سے پیچھے کی طرف واپس آئیں، تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ افراد کی یہ اکثریت اگر تبدیلی کو سمجھتی نہ ہو، تو اسے کیسے اور کیونکر قبول کرے گی، اور اس کا ساتھ کیونکر دے گی، یا اس کی حمایت کیونکر کرے گی۔ یہاں وکلا تحریک کے لیے عام لوگوں کی حمایت کو یاد کیجیے۔
۔ یعنی یہ تصور غلط ہے کہ شعور اور عقل و دانائی پر چند ایک چنیدہ افراد کا اجارہ ہے۔ یا یہ چیزیں صرف انھیں ہی عطا ہوئی ہیں۔
۔ شعور اور عقل و دانائی، ہر باہوش فرد میں یکساں موجود ہوتے ہیں، اور یہ بھی کہ یہ ہر فرد میں اس کی اپنی سعی و اکتساب کے مطابق عقلِ سلیم (کامن سینس) کی صورت میں ترقی پاتے ہیں۔ یعنی اختصاصی اور پیشہ ورانہ علم و عمل کے با وصف، ہر فرد میں فہم و تفہیم کا یکساں مادہ موجود ہوتا ہے، جو توجہ اور یکسوئی سے فروغ پاتا ہے، اگر توجہ اور یکسوئی نہیں ہو گی، تو یہ مادہ پسماندہ رہ جائے گا۔
۔ لیکن عیاں ہے کہ ہر فرد سماجی ماحول، سیاسی ماحول اور نظریاتی ماحول کو سمجھنے اور پھر اسے تبدیل کرنے پر اس طرح متوجہ اور یکسو نہیں ہوتا، جیسے دوسرے چند افراد ہوتے یا ہو جاتے ہیں۔
۔ اور یہی چند افراد پھر تبدیلی کے عمل کی ابتدا کرتے ہیں۔ اور پورے معاشرے کے سماجی اور سیاسی مقدر کو بدلنے نکلتے ہیں اور بدلتے ہیں۔
۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ چند افراد کون ہوتے ہیں، اور کیونکر سامنے آتے ہیں۔
۔ اس سوال کا جواب قریب قریب ناممکن ہے۔
۔ ہاں، اتنا اشارہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ،فرض کیجیے، کسی معاشرے، یا جیسے کہ پاکستان کے معاشرے میں، ایسے افراد موجود ضرور ہوں گے، لیکن وہ مختلف اسباب کی بنا پر سامنے نہیں آ پاتے۔ یعنی ہر معاشرے یا ہر آبادی میں ایسے افراد ایک تنوع کی صورت میں موجود ہوتے ہیں، مگر بوجودہ پنپ نہیں پاتے۔
۔ ان وجوہ میں اس معاشرے کے ماحول کا شدید جبر ایک بڑا عامل قرار دیا جا سکتا ہے، جسے ایک طرف دانشور اور دوسری طرف ریاست، حکومت، سیاست، سیاست دان، سیاسی جماعتیں، اور سیاسی گروہ، وغیرہ، برقرار رکھنا چاہ رہے ہوں۔ اور یوں مفروضہ طور پر وہ چند افراد، جو کسی معاشرے میں تبدیلی کی ابتدا کر سکتے ہوں گے، یا کر رہے ہوں گے، یا کرنا چاہتے ہوں گے، وہ ناکام ہو جاتے ہیں، یا ناکام کر دیے جاتے ہیں۔
۔ یہاں یہ بھی عیاں رہے کہ ان افراد کو مسلسل ناکام نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ انھیں ناکام کرنے کے لیے جو پاپڑ بیلے جاتے ہیں، جو اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، جیسا کہ آج کل پاکستان میں ہو رہا ہے، وہ تبدیلی کے لیے لوگوں کی خواہش اور ضرورت کو بھڑکانے کا سبب بنتے ہیں۔
۔ یہ ہے وہ صورتِ احوال جس کے نتیجے میں خود رو احتجاج جنم لیتے ہیں۔ انفرادی اور چھوٹی بڑی ’’بغاوتیں‘‘ برپا ہوتی ہیں۔ علاحدگی کی تحریکیں شروع ہوتی ہیں۔ اور رفتہ رفتہ معاشرے میں اشتعال بڑھتا جاتا ہے۔ مگر پھر یہ ہوتا ہے کہ موجود سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کو زندہ و برقرار رکھنے کے لیے کوئی ایسی سیاسی جماعت سامنے آ جاتی ہے، جو اس ’’اشتعال‘‘ کو زائل کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔
۔ اس کی بڑی مثالیں وکلا تحریک کے دوران دیکھی گئیں۔ جو جماعتیں وکلا تحریک کی حصہ رہیں، اور انھیں مجبوراً اس کا حصہ بننا پڑا، مگر جب وہ جماعتیں حکومت میں آئیں، تو اسی تحریک کو مٹانے پر ُتل گئیں۔ جیسے کہ پاکستان پیپلز پارٹی۔ اور پاکستان مسلم لیگ (ن)، جس نے بہت بڑھ چڑھ کر وکلا تحریک کا ساتھ دیا، اسے مضبوط کیا، اور اس کا ہراول دستہ بنی، جب وہ حکومت میں آئی، تو اس نے اس تحریک کے ثمرات کو کوڑے دان میں ڈالنے کا کام سنبھال لیا۔
۔ یہ اشارہ، یعنی تبدیلی لانے والے چند لوگ ہر معاشرے میں ایک تنوع کی طرح وجود رکھتے ہیں، محض امید کا اشارہ نہیں۔ بلکہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس کی تصدیق بعدازاں تصورات کی تاریخ کرتی ہے، اور بتاتی ہے کہ کہاں کہاں، اور کیسے، کیا کیا نئے تصورات اور نظریات کی تشکیل ہوئی، اور پھر انھوں نے کس طرح ایک معاشرے کو منقلب کر ڈالا۔ یعنی نئے تصورات اور نظریات نے ایک موجود سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کو کس طرح بدل دیا۔
۔ مختصر یہ کہ پاکستان میں ہمارا سماجی و سیاسی مقدر بدل کیوں نہیں رہا، اس کا بڑا سبب سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کا شکنجہ ہے، اور یہ شکنجہ کہیں باہر سے مسلط نہیں ہوا، باہر سے مراد غیرملک نہیں، بلکہ یہ شکنجہ ہر فرد کے اندر موجود ہے۔ یہ شکنجہ ہر فرد کے سماجی اور سیاسی رویے، تعصبات، تصورات، نظریات، جذبات، وغیرہ، کا شکنجہ ہے۔
۔ اسی بات کو کچھ برس قبل، میں اپنے ایک انگریزی مضمون میں، ’’اندرونی محاصرہ‘‘ (سیج فرام وِدان) کے تحت لکھ چکا ہوں۔
۔ لیکن اس اندرونی شکنجے اور اندرونی محاصرے کی ترکیبوں اور مظاہر سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں اس بات کی وکالت کر رہا ہوں، جسے ہمارے یہاں اکثر دہرایا جاتا ہے، کہ ہر فرد اپنی جگہ ٹھیک ہو جائے، تو معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا۔ یعنی ہر فرد اپنے سماجی و سیاسی رویے، تعصبات، تصورات، نظریات، جذبات، وغیرہ، کو بدل لے، تو ہمارا سماجی و سیاسی مقدر بدل جائے گا۔
۔ ایسا بالکل نہیں، اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
۔ بلاشبہ، تبدیلی کی خواہش اور ضرورت لوگوں کی اکثریت میں موجود ہے، اور بھڑک رہی ہے۔ اور سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کا شکنجہ بھی اس وقت ایک ایسے تناؤ کی صورت کا حامل ہے، جسے محض ایک متوازن چوٹ ٹکڑے ٹکڑے کر سکتی ہے۔
۔ مگر یہ ’’متوازن چوٹ‘‘ سیاسی ماحول کی طرف سے آنی چاہیے۔
۔ میں ’’آنی چاہیے‘‘ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر یہ ’’متوازن چوٹ‘‘ سیاسی ماحول یعنی موجود سیاسی قوتوں کی طرف سے نہیں آتی، تو پھر یہ ’’سماجی ماحول‘‘ کی طرف سے آئے گی۔ اور، جیسا کہ ابھی اوپر ذکر ہوا، یہ چیز معاشرے میں ’’خانہ جنگی‘‘ جیسی صورت پیدا کر سکتی ہے۔ بلکہ پیدا کر رہی ہے۔ یہ صورت منتشر انداز میں پہلے ہی موجود ہے۔ منظم صورت میں بھی اور غیرمنظم صورت میں بھی۔
۔ سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کو باقی رکھنے والی قوتیں سمجھ رہی ہیں کہ یہ ’’خانہ جنگی‘‘ جیسی صورت، اور پھر منظم اور غیرمنظم انداز کی نراجیت ان کی بقا کا سامان مہیا کرتی رہے گی۔ یہ ان کی بھول اور خوش فہمی ہے۔ ’’تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ کے مصداق سماجی ماحول میں یہ صورت ایک بڑی خانہ جنگی میں بدل سکتی ہے۔
۔ گو کہ اس سے ہمارا سماجی، سیاسی اور نظریاتی مقدر بدلے گا نہیں، محض دکھاوے کی چند ایک چیزیں سجا دی جائیں گی۔ مگر یہ چیز عام افراد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گی، اور ایسا پہلے ہی ہو رہا ہے، اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں۔ پھر یہ بھی کہ یہ چیز معاشرے کے انسانی اور سماجی تار و پود کو پارہ پارہ کر سکتی ہے۔ بلکہ پہلے ہی کر رہی ہے۔
۔ ان باتوں کے بیان سے میرا مقصود کوئی تنبیہہ نہیں۔ بلکہ جو کچھ ہو رہا ہے، اور جو کچھ کل کلاں ہو سکتا ہے، صرف اس کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔
۔ یا پھر کوئی نئی سیاسی جماعت تبدیلی کے لیے لوگوں میں بھڑکتی ہوئی خواہش اور ضرورت کا علم اٹھا کر سامنے آ سکتی ہے۔ اسے آنا چاہیے۔
۔ ہاں، اگر اسے ایسا کرنے دیا گیا۔
۔ یہ جماعت کسی بھی قسم کی ہو سکتی ہے، جو کسی نوع کے خونی انقلاب کی داعی ہو، یا جو بتدریج تبدیلی کی داعی ہو، یا ایک اخلاقی اور جمہوری معاشرے کی داعی ہو۔
۔ پاکستان کے سماجی، سیاسی اور نظریاتی ماحول کے آتش فشاں میں جو لاوا پک رہا ہے، وہ ابلنے کو تیار ہے۔ یہ محض برسوں کی بات ہے کہ جب ہم اس آتش فشاں کو پھٹتا دیکھیں گے!
[…] https://pakpoliticaleconomy.com/?p=2003 […]
جناب
آسان زبان یاں میی اپنا تجزیہ لکھا کریی
دعا ھے کہ لاوہ پھٹے
اور وہ اس گندی جمہوریت کو اور دللال نسل کے سیاست دانوں کو بہا کر لے جائے ۔۔۔۔۔۔۔