Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

ایک بڑا خلطِ مبحث: عمران خان کو سیاست میں ہرائیں

پاکستان کے دانشور اور تجزیہ نگار ایک سے بڑا ایک خلطِ مبحث پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اور پھر خود ہی بڑے ناز سے بتاتے ہیں کہ بس یہی آخری صداقت ہے۔

ان کا یہ عمل ایک مغالطے کو تخلیق کرنے اور پھر اسے ایک سچائی کے طور پر پیش کرنے سے مماثل ہے۔

جبکہ ان کے پاس دلائل کم ہی ہوتے ہیں۔ نہ ہی یہ دلائل لانے کو ضروری سمجھتے ہیں۔

بہرحال، موجودہ مغالطہ جس سے بحث مقصود ہے، یہ ہے کہ عمران خان کو سیاست میں شکست دیں۔ اسے سیاسی طور پر ہرائیں۔ یعنی وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان (یا تحریکِ انصاف کہہ لیجیے۔ میری رائے میں عمران خان ہی تحریکِ انصاف ہے۔) کو منصفانہ اور شفاف انتخابات میں ہرائیں۔

میرا استدلال اسی مغالطے کو جھٹلانے اور اس کی تردید پر متوجہ ہے۔

پہلے تو یہ کہ عمران خان سیاست دان نہیں، نہ ہی پاکستان تحریکِ انصاف کوئی سیاسی جماعت ہے۔ یعنی یہ دونوں سیاسی ہوں، تو پھر یہ تقاضا حق بجانب ہو سکتا ہے کہ انھیں سیاست میں ہرایا جائے۔

ایک حکایت یاد آتی ہے (میں اسے حکایت اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس واقعے کو کس سے منسوب کیا جائے۔ اول اول مجھے یہ حکایت علامہ شبیر حسین بخاری سے سننے کا موقع ملا۔)۔ کوئی معروف استاد تھے۔ ان کی جماعت میں کسی طالب علم نے چوری کی۔ جب یہ بات ان کے علم میں لائی گئی تو انھوں نے کہا: کوئی طالب علم چوری نہیں کر سکتا۔ یہ کوئی چور ہے، جو طالب علموں میں گھُس آیا ہے۔

جیسا کہ درج ہوا، عمران خان، سیاست دان نہیں۔ یہ ایک فسطائی ہے، جو سیاست دانوں میں گھُس آیا ہے۔ (میں یوں نہیں لکھنا چاہتا کہ گھُس آیا ہے، میں لکھنا چاہتا ہوں کہ عمران خان گھُس آئے ہیں۔ مگر میری اخلاقی حِس کسی ایسے شخص کو شمہ بھر عزت دینے پر تیار نہیں، جس نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے ہر چیز کو نفرت اور انتقام کی بھٹی میں جھونک دیا۔ جس نے طاقت کے حصول کی خاطر خونی رشتوں سمیت ہر انسانی اور معاشرتی رشتے کو روند ڈالا۔)

اگر عمران خان کی ’’سیاست‘‘ کے ارتقا پر نظر ڈالی جائے، تو درج ذیل سفر سامنے آتا ہے۔

عمران خان کو سیاست میں کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ وہ اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ اصل میں وہ ’’وزیرِاعظم‘‘ بننے کا متمنی ہی نہیں، بلکہ ہر قیمت پر اپنی یہ خواہش پوری کرنا چاہتا تھا۔ اس کا بین ثبوت جینرل پرویز مشرف کا ابتدائی دور ہے، جب اسے وزیرِاعظم بنانے کا خواب دکھایا گیا، اور جب اس کا یہ خواب ٹوٹنے لگا، تو وہ جینرل کے خلاف ہو گیا۔ قبل ازیں، وہ جینرل کے حواریوں میں شامل اور مارشل لا کا حامی تھا۔

جتنے بھی انتخابات ہوئے، عمران خان کو ان میں معمولی کامیابی تک حاصل نہیں ہو سکی۔

جیسا کہ صحافیوں نے اب اور تب وہ سب کہانیاں سنا ڈالی ہیں (ان میں یہ نام شامل رکھیے اور یہ وہ نام ہیں، جو میری نظر میں آئے اور نظر سے گزرے: جاوید چودھری، سلیم صافی، وغیرہ)، تو سب کچھ کیسے ہوا، یہ سب عیاں ہو کر سامنے آ چکا ہے۔

جینرل باجوہ کی ڈیل شہباز شریف کے ساتھ ہو رہی تھی، مگر یہ بوجوہ پایہٴ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔

اصل میں نواز شریف کو اپنی اوقات میں لایا جانا تھا۔ اس کا موثرترین حربہ یہ ہو سکتا تھا کہ شہباز شریف، قائمیہ کے ساتھ ملوث ہو جائیں۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ (بالآ خر، ہو گیا، فروری 2024 کے انتخابات کے بعد۔)

(جملہٴ معترضہ: پاکستان میں قائمیہ کبھی کسی سیاسی جماعت کو نابود نہیں کر سکی۔ وقتی نقصان ضرور پہنچا، مگر یہ جماعتیں عود کر آئیں۔ یہ پہلے سے زیادہ طاقت ور بن کر اُبھریں۔ تاہم، یہ خود سیاسی جماعتیں ہیں، جنھوں نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں، بلکہ کلہاڑے مار مار کر خود کو ادھ موا کر لیا۔ جیسے پاکستان پیپلز پارٹی کو آصف علی زرداری کی سیاست نے ادھ موا کیا۔ اور اب پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاست کو صرف شہباز شریف تو نہیں، بلکہ خود نواز شریف کی سیاست نحیف و نزار بنا رہی ہے۔ بلکہ کہنا یہ چاہیے کہ ن لیگ اپنی سیاست کو بھیگی بلی بنا کر نچوڑ رہی ہے۔)

اور یوں عمران خان کی لاٹری نکل آئی۔ گوکہ بتایا جاتا ہے کہ جینرل باجوہ سے ان کی پہلی ملاقات بے سود رہی۔ عمران خان، جینرل پر کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کر سکے (یہ بھی طرفہ تماشا ہے عمران خان کا تاثر اور وہ بھی جینرل باجوہ پر!)۔ تاہم، چونکہ شہباز شریف کے ساتھ مطلوبہ ڈیل ہو نہیں پا رہی تھی، لہٰذا، قائمیہ نے عمران خان پر اکتفا کر لیا۔

(دیکھ لیجیے اختیارِ مطلق کیا کیا کھیل دکھلاتا ہے، اور کیا کیا گُل کھلاتا ہے! جب جوابدہی نہ ہو، تو لوگ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ وہ سب کچھ جس کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سوچیے، ان صحافیوں سمیت، جو اب گواہ بنے پھِرتے ہیں، ’’پراجیکٹ عمران‘‘ سوچنے، بنانے اور اس پر عمل درآمد کرنے والوں کے ذہن و گمان میں کہیں آئین اور قانون کا رتی بھر شائبہ موجود تھا!)

پھر ہوا یہ کہ بالخصوص کیا، ایک مفہوم میں طے شدہ انداز میں، ن لیگ کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا گیا۔ گوکہ ابتداً پیپلز پارٹی بھی نشانہٴ ستم بنی۔ لیکن بعد ازاں، آصف علی زرداری نے اپنے لیے کچھ گنجائش پیدا کروا لی۔ پر اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ان کا سیاسی ٹھکانہ سندھ ہے، اگر یہ پنجاب ہوتا، تو وہ اور پیپلز پارٹی بھی اسی طرح، ہدف بنتے۔

قائمیہ نے ایک اتحاد بنایا یا کہہ لیجیے کھڑا کیا۔ زور زبردستی، جور و ستم، جبر و اکراہ، دھونس دھاندلی، حرص و آز، لالچ، سمیت ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ ریاستی وسائل استعمال کیے گئے۔ ریاست کی افرادی قوت استعمال کی گئی۔ ریاستی میڈیا استعمال کیا گیا۔

پہلا اتحادی الیکٹرانک میڈیا کو بنایا گیا۔ پرانے الیکٹرانک اینکروں، تجزیہ کاروں اور دانشوروں کو بھرتی کیا گیا۔ جنھوں نے سرِ تسلیم خم نہیں کیا، انھیں نوکریوں سے نکلوایا گیا۔ (غنیمت ہے کہ سوشل میڈیا وجود میں آ چکا تھا۔ ان دربدر کیے جانے والوں کو وہاں جائے پناہ ملی۔) ان میں سب سے بڑا نام طلعت حسین کا ہے۔

نئے الیکڑانک اینکر، دانشور، اور تجزیہ کار گھڑے اور تراشے گئے۔ اور انھیں پرائم ٹایم رائے ساز کے طور پر پروموٹ کیا گیا۔

بلکہ اس مقصد سے نئے ٹی وی چینلز بھی لائچ کروائے گئے۔

پرنٹ میڈیا کو بھی ساتھ متحد کیا گیا۔ پرانے دانشور اور کالم نگار ریکروٹ کیے گئے۔ نئے دانشور اور کالم نگار ایجاد کیے گئے۔

یہاں تک کہ نئے اخبار بھی نکلوائے گئے یا اپنے نام اور کام پر لگوائے گئے۔

اگرچہ 2013 کے عام انتخابات سے قبل ’’محمکہٴ زراعت‘‘ بہت سرگرم رہا۔ آئی ایس پی آر (انٹر سروسز پبلک ریلیشنز) نے بھی اعلانیہ کارکردگی دکھائی۔ اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ہر کاروائی کی بھی گئی اور ڈالی بھی گئی۔

تاہم، یہ ساری جد و جہد رائیگاں گئی۔ اور انتخابات میں ن لیگ نے میدان مار لیا۔ (یاد رہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج، شوکت صدیقی نے کیا کچھ بتایا اور کیسے بتایا کہ فیض حمید نے انھیں کہا کہ ہماری برسوں کی کوشش ضائع چلی جائے گی۔)

یعنی قائمیہ کی دامے، درمے، اور سخنے، ہر طرح کی سالم سپورٹ کے باوجود سیاست میں، یا یہ کہہ لیجیے کے انتخابات میں، عمران خان کی کارکردگی غیرموثر تھی۔ اس طرح منہ کی کھانے پر، وہ اور اس کی جماعت کے گُرگے الیکٹوریٹ پر دشنام طرازی کرتے رہے، انھیں بے وقوف ٹھہراتے رہے۔

یہ ہزیمت قائمیہ اور عمران خان دونوں کو ہضم نہیں ہوئی۔

اب 2014 کا دھرنا کروایا گیا۔ اور ریاست کے خلاف بغاوت نما ہر قدم اٹھایا گیا۔ بلکہ بغاوت کروائی گئی۔

نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کے لیے ریاست کے ہر ستون کو داؤ پر لگایا گیا۔ با الفاظِ دیگر ریاست کی جڑوں کو ہلا دیا گیا۔

(ہمیں اس سے یہ اندازہ لگا لینا چاہیے کہ کون کون پاکستان کی ریاست کے ساتھ مخلص تھا یا ہے اور کون نہیں! اور یہ بھی کہ سیاست کیا ہے، اور کیا نہیں۔)

ایک ادارے کی حیثیت سے پولیس کو بےتوقیر کیا گیا۔ قائمیہ نے عمران خان کی محبت میں حکومت کی رِٹ کی تحقیر روا رکھی۔ سول ڈِس اوبیڈیئیس کی تحریک چلائی گئی، چلوائی گئی۔ پارلیمان پر اور پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا، کروایا گیا۔ اور بعد میں اس شخص کو اس بے چارے ملک کا صدر بنایا گیا، بنوایا گیا، جو پی ٹی وی پر حملے کو فتح قرار دے رہا تھا۔ چین کے صدر کا دورہٴ پاکستان نہ ہو سکا، یا اس دورے کو روکا گیا، یا رکوایا گیا۔

(میرے لیے اس دورے کے ملتوی ہونے کا معاملہ ناقابلِ فہم ہے۔ پارلیمان اور پی ٹی وی پر حملے بھی ناقابلِ فہم ہیں، اور ویسے ان کے ضمن میں حکومت کے حکم سے عدول حکمی کے قصے بھی۔)

حیران کن امر یہ ہے کہ حکومت دشمن (جو حقیقتاً ریاست دشمن تھے) تمام اقدامات کے باوجود نواز شریف کی حکومت بچ گئی۔

سوچا جا سکتا ہے کہ قومی اسیمبلی اور سینیٹ میں کیا کیا کچھ سازشیں نہیں کروائی گئی ہوں گی!

اب وہی جنھیں بدنامِ زمانہ سمجھا جاتا ہے، انھیں بھرتی کرنے اور اپنا اتحادی بنانے کی باری آ گئی تھی۔

یعنی عدالتِ عظمیٰ اور عدالتِ عالیہ کو یا یہ کہ جج حضرات کو اتحادی بنایا گیا۔

جب جاوید ہاشمی نے 2014 کے دھرنے کے دوران میں عمران خان کو خیرباد کہا، تو انھوں نے اپنی پریس کانفرینس میں یہ بھی بتایا تھا کہ عمران کہتا تھا کا آنے والا چیف جسٹس ثاقب نثار ہمارا جج ہے۔

سو اب، اور یوں، نواز شریف کو عدالتِ عظمیٰ سے نااہل کروایا گیا (اور جہانگیر ترین کو بیچ میں ویسے ہی تل دیا گیا! ’’صلہٴ ترین کیا ہے، بنے بے وجہ نشانہ‘‘)۔

(What a Game of Treachery! And lo and behold, it’s been played since day one and continues to the moment. And the most ominous thing all about it is that politicians are part of it.)

یہ غداری اور دغا بازی کا کیسا کھیل تھا، جس کے سامنے ’’گیم آف تھرونز‘‘ (Game of Thrones) بھی پانی بھرے اور شرما جائے۔

کوئی نیٹ فلکس (Netflix) یا ایچ بی او (HBO) اسے فلمانے کا بیڑہ اٹھائے، تو اس کے ایپی سوڈز برسوں چلیں، اور دنیا ’’گیم آف تھرونز‘‘ کو بھول جائے۔

بہرحال، ن لیگ نے باقی ماندہ عرصے کے لیے شاہد خاقان عباسی کو وزیرِاعظم بنایا۔ حکومت پھر بھی عمران خان کو نہیں ملی۔

اور یہ چیز اس بات کا ثبوت ہے کہ آئین کا وجود گو کہ ان آئین دشمنوں کے نزدیک ایک تنکے سے کچھ زیادہ حیثیت نہیں رکھتا (ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے، بقول جینرل ضیا الحق)، مگر یہ تنکہ بھی بسا اوقات سازشیوں کی راہ میں بہت بڑا پہاڑ بن جاتا ہے۔

اب غالباً قائمیہ اور عمران خان دونوں کا پیمانہٴ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ لہٰذا، 2018 کے عام انتخابات کو سالم اغوا کر لیا گیا۔

بالآخر ہزارہا کاوش کے بعد قائمیہ نے عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کے ’’تخت‘‘ پر لا بٹھایا۔

یہ تھا عمران خان کی ’’سیاست‘‘ کا وہ سفر، جس کی بنا پر یہ استدلال قائم کیا جاتا ہے کہ اسے سیاست میں شکست دی جائے۔

یہ ’’سیاست‘‘ کس طرح کی حکمرانی پر منتج ہوئی، اس کا بھی ایک طائرانہ جائزہ لے لینا ضروری ہے۔

عمران خان کا دورِاقتدار ہر اعتبار سے ناکام ترین ثابت ہوا۔ سیاسی محاذ، معاشی محاذ، خارجی محاذ، ہر محاذ پر تاریخی ناکامیاں مقدر بنیں۔ قائمیہ یا عمران خان کا مقدر نہیں، بلکہ اس بے چارے ملک اور بے چارے شہریوں کا مقدر بنیں۔

وہ ’’سیاست‘‘ جو کرپشن کے نام پر چلوائی گئی تھی، کیونکہ اور کوئی حیلہ تھا نہیں، اس سیاست کا نتیجہ کرپشن کی ایسی کہانیوں کی صورت میں نکلا، جو صحافی کامران خان کی کرپشن کی غضب ناک کہانیوں سے کہیں زیادہ غضب ناک ہیں۔ اور ابھی تو یہ کہانیاں پردہٴ اخفا سے باہر آ رہی ہیں۔

ایک بات کہی اور مانی جاتی ہے، اور میں بھی ایسا ہی سمجھتا تھا، کہ جب کوئی شخص کسی ایسے عہدے پر براجمان ہو جاتا ہے، وہ جس کا اہل نہیں، تو وہ اپنی بھرپور سعی کرتا ہے کہ وہ خود کو اس عہدے کے تقاضوں پر پورا اُترنے کے قابل بنائے۔ مگر یہاں تو قصہ ہی اور تھا۔ خبطِ عظمت اور مریضانہ سوچ رکھنے والے شخص کو ایک ایسا عہدہ دان کر دیا گیا، وہ جس کے قابل تھا ہی نہیں، اور اس نے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ خود کو اس کے قابل بنانا بھی نہیں چاہتا تھا، اور بنا بھی نہیں سکتا تھا۔

ان سب معاملات و سانحات سے قطع نظر میں دو باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔

پہلی بات نواز شریف سے متعلق ہے۔ جب انھیں وزارتِ عظمیٰ سے نااہل کیا گیا، تو یہ ایک حقیقت بھی سامنے آئی کہ وہ دبئی میں قائم اپنے فرزند کی کسی کمپنی کے پے رول پر بھی تھے، گو کہ تنخواہ نہیں لیتے تھے، اور انھوں نے دبئی کا اقامہ بھی رکھا ہوا تھا، غالباً اس لیے تاکہ وہ باآسانی دبئی آ جا سکیں۔

گو کہ انھیں غیرقانونی انداز میں با ایں سبب نااہل کیا گیا کہ انھوں نے اس معاملے کو الیکشن کمیشن کے سامنے شفاف انداز میں بیان نہیں کیا، اور یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ وہ اس کمپنی سے تنخواہ وصول نہیں کرتے تھے۔ لیکن مجھے جس چیز نے مایوس و ملول کیا، وہ یہ تھی کہ آیا پاکستان کے وزیرِ اعظم کا عہدہ اتنا ہی بے وقعت ہے کہ دبئی کے اقامے کی خاطر کوئی اپنے فرزند کی کمپنی میں ملازم بن جائے۔

بعینہٖ عمران خان کی نام نہاد ’’سیاسی مہم جوئی‘‘ سے قطع نظر، جب اس شخص کے ضمن میں ایک لگژری گھڑی کا قصہ سامنے آیا، تو مجھے اپنا سر شرم سے جھکا محسوس ہوا۔ اور میں یہ بھی سوچتا ہوں آیا اسے بھی کبھی کوئی شرمندگی محسوس ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ میں غلط ہوں۔ اگر اسے شرمندگی محسوس ہونی ہوتی، تو وہ اپنی ہوا و ہوس پر کچھ نہ کچھ قابو پا سکتا تھا۔ اس نے تو ایک محروم کی ہوس سے بڑھ کر لالچ کا مظاہرہ کیا۔

یاد رہے سیاست دانوں پر کرپشن کا الزام وہ پرانا اتہام ہے، جو قائمیہ نے اول روز سے قائم کیا ہوا تھا (آیا یہ چور مچائے شور جیسی بات ثابت نہیں ہوئی؟!)۔ یعنی یہ جینرلوں کا مارشل لائی حیلہ تھا۔ 1958 سے لے کر 1999 کے مارشل لا تک۔

عمران خانی حکومت کی اگر کوئی کامیابیاں ہیں، تو وہ مخالف سیاست دانوں، خاص طور پر ن لیگیوں، مخالف دانشوروں، تجزیہ کاروں، اینکروں، ٹی وی چینلوں، اخباروں، وغیرہ، کے خلاف انتقامی کاروائیوں سے عبارت ہیں۔ اس حکومت کا ’’کھٹیا وٹیا‘‘ بس یہی کچھ ہے۔

صحافی رؤف کلاسرا بتاتے ہیں کہ عمران خانی حکومت کے کسی کرتا دھرتا کو اگر کسی صحافی کی کوئی ٹویٹ بُری لگ جاتی تھی، تو آئی ایس آئی سے کہا جاتا تھا کہ اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کروائیں۔

معاشی اعتبار سے بھی عمران خانی حکومت کے کاغذ پر کوئی کامیابی درج نہیں۔

آج پاکستان کے شہری جس معاشیاتی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس کا کیچڑ عمرانی حکومت کے دور میں بھی تیار ہوا۔

خارجی تعلقات کے معاملے میں پاکستان کی ریاست کو ناقابلِ اندازہ نقصان اٹھانا پڑا۔ دیرینہ دوست سمجھے جانے والے ممالک پاکستان کی حمایت سے دور ہوتے چلے گئے۔

جن دانشوروں، اینکروں اور تجزیہ کاروں کا استدلال یہ ہے کہ عمران خان کو سیاسی طور پر ہرایا جائے، انھیں اس پس منظر کو بھی سامنے رکھنا ہو گا، جس میں اس کی حکومت کو باقاعدہ آئینی طریقے سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ختم کیا گیا۔

یہ کہانیاں بھی کاغذ پر درج ہو کر سامنے آ چکی ہیں کہ کب، کیوں اور کس طرح حزبِ مخالف یعنی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو کہا گیا کہ قائمیہ نے عمران خانی حکومت کے سر پر سے اپنا دستِ شفقت اٹھا لیا ہے، اور اب وہ قومی اسیمبلی میں عمران خانی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لا سکتے ہیں۔

اس سے قبل بھی ایک مرتبہ عدم اعتماد کی کوشش ہو چکی تھی۔ مگر ابھی سر پر ہاتھ موجود تھا اور فیضیابی بھی، لہٰذا، وہ تحریک ناکام ہو گئی۔

عیاں رہے کہ پاکستان کی ریاست اور پاکستان کے شہریوں کے ساتھ جتنے ظلم روا رکھے گئے، ان میں سب سے بڑا ظلم یہی تھا، یعنی عمران خان کو ریاست کے سر پر سوار کروانا۔ اور کیسے سوار کروایا گیا، یہ تفصیل بھی اب اخبارات اور ٹی وی چینلوں اور یوٹیوب پر درج ہو چکی ہے۔

لیکن عمران خان کو ریاست کے سر سے اتروایا کیسے گیا، خیریت گزری کہ اس کام کے لیے آئینی طریقِ کار کو استعمال کیا گیا یا کروایا گیا۔

تاہم، خلطِ مبحث پیدا کرنے والوں کو اس چیز کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ عمران خان کو وزیرِاعظم ہاؤس سے نکالا کیسے گیا، کیونکہ وہ نکلنے پر تیار نہیں تھا۔ اپنی فینٹسی میں وہ اب بھی وہیں موجود ہے!

بلکہ اس سے بڑھ کر خلطِ مبحث کے ماننے والوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ عدم اعتماد کی تحریک کو ٹالنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ ہر غیرآئینی حربہ استعمال کیا گیا۔ یہاں تک کہ اسیمبلی کو بھی تحلیل کر دیا گیا۔

جبکہ اس وقت کے سپریم کورٹ نے عمران خانی حکومت کے ہر غیرآئینی اقدام کو زائل کیا اور ان کی وزارتِ عظمیٰ کے خاتمے میں مثبت کردار ادا کیا۔

(یہاں پھر یہ چیز میرے لیے ناقابلِ فہم ہے کہ وہ جج حضرات جو عدم اعتماد کی تحریک کے آئینی اقدام کو سپورٹ کر رہے تھے، اور عمران خانی حکومت کے خاتمے کو ممکن بنا رہے تھے، بعدازاں، وہی جج حضرات عمران خان کی فاش حمایت پر کیسے کمربستہ ہو گئے۔ کیا یہ بھی فیضیابی کا کوئی چمتکار تھا؟)

اب عمران خانی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خانی ’’سیاست‘‘ نے کیا چولا پہنا اور کیا روپ اختیار کیا، یہ داستان اپنی جگہ عبرت انگیز تو ہے ہی، مگر اس سے بھی یہ عیاں ہوتا ہے کہ اس عمران خانی ’’سیاست‘‘ نے ریاست کی پہلے ہی ہلی ہوئی بنیادوں کو کس طرح کھوکھلا کرنے کا کام سنبھالا۔

یہ تو فرق یہ ہے کہ ریاست کوئی عمارت نہیں، ورنہ یہ کب کی منہدم ہو گئی ہوتی۔ اگرچہ ریاست بطور ایک ادارے کے نہایت بے وقعت اور ہلکی ہو کر رہ گئی ہے۔

جب عمرانی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومینٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت بنی، اور عمران خانی ’’سیاست‘‘ ریاست کی جڑیں کاٹنے پر اتارو تھی (عمران خانی ’’سیاست‘‘ ہمیشہ اول روز سے ہی اسی نوع کی سیاست رہی ہے اور ہے، اور رہے گی۔)، اور سپریم کورٹ کس طرح عمران خان کا پشتی بان بنا ہوا تھا، اب بھی بنا ہوا ہے، اس وقت بھی میرا موقف یہی تھا کہ خواہ یہ پی ڈی ایم کی حکومت ہو، یا کوئی اور سیاسی حکومت، وہ عمران خان سے نبردآزما نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کو اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے، اور ریاست کے اداروں کو اس قدر بے وقعت بنا دیا گیا ہے کہ وہ عمران خان کی ریاست دشمن سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں، اور جبکہ سپریم کورٹ بھی بجائے آئین کا محافظ بننے کے عمران خان کا محافظ بن گیا ہو۔

(کچھ عرصے پہلے تک یہ چیز بھی ناقابلِ فہم تھی کہ سپریم کورٹ کو کیا ہو گیا ہے۔ مگر جب فیض کہانی کھل کر طشت از بام ہوئی، تو یہ بات کافی حد تک قابلِ فہم ہو گئی تھی۔ مگر فیض کہانی کے نشریے کے بعد بھی سپریم کورٹ عمران خان کا مددگار بنا ہوا ہے، یہ بات پھر ناقابلِ فہم بن گئی ہے، یا پھر یہ کہ مخصوص جج حضرات بھی عمرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں!)

میں عمران خانی حکومت کے خاتمے کے بعد سے بارہا یہ لکھتا، کہتا اور یوٹیوب پر اپنے ولاگ میں بھی یہ بات کرتا آرہا ہوں کہ عمران خان کا مقابلہ صرف قائمیہ کر سکتی ہے۔ کیونکہ کسی سیاسی جماعت کو اس قابل چھوڑا ہی نہیں گیا۔ کسی سیاسی جماعت میں اتنی سکت باقی ہی نہیں رہنے دی گئی کہ وہ قانون کا نفاذ کر سکے۔

اور میرے اس نقطہٴ نظر کے پیچھے اس حقیقت کا ادراک موجود ہے کہ عمران خان کوئی سیاست دان نہیں۔ وہ ایک فسطائی اور خبطِ عظمت کا شکار ایک سائیکو فرد ہے۔ ایک ایسا فرد جو اقدار کے کسی نظام پر یقین نہیں رکھتا۔

وہ نہ تو اخلاقی اقدار کو مانتا ہے، نہ کسی اصول کو، نہ کسی روایت کو، نہ کسی قاعدے اور ضابطے کو، نہ کسی قانون کو، اور نہ ہی کسی آئین کو۔ اور نہ کسی اتھاریٹی کو، نہ کسی سند کو۔

وہ ایک پامالی ہے، روڈ رولر کے مفہوم میں۔ یعنی ایک ایسا فرد جو اپنی غرض کے لے ہر چیز ہر شے ہر فرد کو روندے ڈالتا ہے۔ اس کے پیچھے ہی اس کے فسطائی اور سائیکو ہونے کا مفہوم چھپا ہوا ہے اور توجیہہ بھی۔

وہ ایک انہدامی ہے، اس بارود کے مفہوم میں جسے جہاں بھی نصب کر دیا جائے گا، وہ ہر چیز کو منہدم کر دے گا اور تباہی پھیلائے گا۔

وہ ایک مسماری ہے، اس کرین کے مفہوم میں، جسے جہاں بھی استعمال میں لایا جائے گا، وہ اپنے پنجے کے نیچے آنے والی ہر چیز کو ڈھاتی جائے گی۔

وہ ایک ’’سونامی‘‘ (اپنی جماعت کے لیے خود عمران خان کا چنا ہوا نام) ہے، جس کے راستے میں جو کچھ آتا ہے، وہ اسے تہس نہس کرتی جاتی ہے۔

یہاں اس مرحلے پر کیا اس بڑے خلطِ مبحث کے پیدا کرنے والوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جیسے ہر کام کے کچھ نہ کچھ قاعدے ہوتے ہیں، اور یہاں تک کہ جب بچے کوئی کھیل بناتے ہیں، تو وہ اس کے لیے کچھ قاعدے بھی تجویز کر لیتے ہیں، اور انھی قاعدوں کے مطابق یہ کھیل کھیلتے ہیں۔

بعینہٖ اسی طرح سیاست کے بھی کچھ قاعدے ہیں۔ اب جو شخص کسی بھی قاعدے کو خاطر میں نہ لاتا ہو، بلکہ ہر قاعدے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہو، اسے سیاست میں ہرانے کی بات کون ہوش مند کر سکتا ہے۔

اور کیا اس خلطِ مبحث کے پیدا کرنے والوں کو یہ بات بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سیاست کے قاعدوں کا مجموعہ پاکستان کا آئین ہے۔

کیا ان کا ممدوح پاکستان کے آئین کو مانتا ہے؟ کیا وہ پاکستان کے کسی قانون کو مانتا ہے؟ یا وہ خود قانون ہے؟ جی ہاں، یہی وہ کلید ہے، جو عمران خان کے ایک فسطائی اور سائیکو ہونے کا کافی و وافی ثبوت مہیا کرتی ہے۔

اس موقعے پر ایک اور معاملے سے بحث ناگزیر ہے۔ اور اس معاملے کا استدلال یوں کیا جاتا ہے: دیکھیں نا کتنے لوگ عمران خان کے حامی ہیں۔ آپ منصفانہ انتخابات کروا لیں، وہ جیت جائے گا۔

فروری 2024 کے انتخابات کے گرد جھوٹ کی جو حاشیہ آرائی کی گئی ہے، اسی سے یہ ایک نیا مغالطہ برآمد کیا گیا ہے کہ ان انتخابات میں عمران خان کو ہرایا گیا اور ن لیگ کو جتوایا گیا۔

یہ بذاتِ خود ایک اور بہت بڑا خلطِ مبحث ہے۔ بالکل اسی طرح کا، جیسا اور جس کا کچا چٹھا اوپر بیان ہوا۔

اس خلطِ مبحث پر مختلف زاویوں سے نظر ڈالنا ضروری ہے۔

ایک تو یہ کہ عمران خان کی ’’سیاست‘‘ اور ’’شخصیت‘‘ دونوں کو دو ستونوں پر تعمیر کیا گیا۔ پہلا ستون، کذب، جھوٹ اور افترا پر مشتمل تھا اور ہے۔ اور دوسرا ستون ن لیگ اور بالخصوص شریف خاندان کی توہین و تحقیر اور ان پر بہتان طرازی پر استوار ہے۔ جیسا کہ عیاں ہے کہ فسطائیت کسی نہ کسی ہدف کے بغیر کام کر ہی نہیں سکتی۔

دوسرے یہ کہ عمران خان کی تشہیر کی بیشتر تعمیر جن پلیٹ فارموں پر کی گئی، وہ تشہیر جوابی طور پر بیشتر انھی پلیٹ فارموں پر وجود رکھتی ہے۔ یعنی سوشل میڈیا پر۔ مراد یہ کہ عمران خان کی بیشتر حمایت سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں پر پائی جاتی ہے۔ اس کے خاصے ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی عیاں ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں کو توڑا مروڑا جا سکتا ہے اور ان سے اپنی مرضی کے نتائج کس طرح برآمد کیے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایکس (ٹویٹر) کی مثال سے ظاہر ہے۔

(پھر ایک جملہٴ معترضہ: ایکس پر حکومتی پابندی کو بھی ایک ثبوت کے طور پر سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ یعنی کیونکہ ایکس پر توڑمروڑ اور سازباز کے ذریعے مختلف رجحانات کی نمائش کی جاتی ہے، اور ایکس کے ذریعے جھوٹ، افترا، بہتان تراشی، گالم گلوچ کو بھی پھیلایا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایکس کو پاکستان میں بند کر دیا گیا ہے۔

مگر جیسا کہ یہ چیز عیاں ہے کہ مصنوعی طور پر جوڑے جانے والے یہ رجحانات حقیقی رجحانات کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملوث افراد کے خلاف قانونی اقدامات کی ضرورت ہے، نہ کہ ایکس پر پابندی لگا دینا کوئی حل ہے۔

مزید یہ کہ قائمیہ اور حکومت کو اس افترا سازی اور مصنوعی رجحانات سے ڈرنے کے بجائے اس کے پیچھے کارفرما توڑمروڑ اور سازباز کو بے نقاب کرنا چاہیے۔)

جہاں تک یوٹیوب کا تعلق ہے، اس کے ضمن میں طلعت حسین کے متعدد ولاگ دیکھے جا سکتے ہیں، جو یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ ان ولاگ میں انھوں نے شماریات کی مدد سے یہ بتایا ہے کہ اپنی گرفتاری سے قبل یوٹیوب پر عمران خان کے لائیو خطابات دیکھنے والوں کی تعداد کیا ہوتی تھی۔

تیسرے جہاں تک زمینی حمایت اور سیاسی وفاداری کا تعلق ہے، بالعموم اس کا تخمینہ جلسوں اور جلوسوں میں نظر آنے والی حاضری سے لگایا جاتا ہے۔ یہ ایک غلط پیمانہ ہے، بلکہ میڈیا اور اینکروں اور تجزیہ کاروں کا بنایا ہویا ڈھونگ ہے۔ اور صاف بات یہ ہے کہ یہ چیز بھی ایک مغالطہ ہے، کیونکہ اب سیاسی جماعتیں جلسوں کا انعقاد فطری انداز میں نہیں ہونے دیتیں۔

فطری انداز سے مراد یہ ہے کہ جیسے پہلے جلسے منعقد ہوتے تھے یا جلوس نکلا کرتے تھے اور لوگ اپنی جماعت کے ساتھ وفاداری کے تحت جلسے یا جلوس میں اپنی شرکت کو خود ممکن بناتے تھے۔ اب ایسے جلسے دیکھنے ہیں تو پشتون تحفظ موومینٹ (پی ٹی ایم) کے جلسے دیکھیے۔

مزید یہ کہ اب سیاسی جلسوں میں بھی ساز باز اور توڑ مروڑ اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ حاضرین کی تعداد کی نمائش کے لیے لوگوں کو مختلف طرح کے لالچ دے کر لایا جاتا ہے۔ پارٹی کے لوگوں پر یہ ذمے داری عائد کی جاتی ہے کہ وہ اتنے لوگوں کا آنا ممکن بنائیں۔ ٹرانسپورٹ اور خورد و نوش مہیا کی جاتی ہیں، اور رقوم بھی۔ جلسہ ایک شہر میں ہوتا ہے، حاضرین دوسرے شہروں سے لائے جاتے ہیں۔ وغیرہم۔

چوتھے یہ کہ اب تک خاصی شہادتیں سامنے آ چکی ہیں اور غالباً مزید بھی آنے والی ہوں گی کہ فیض اینڈ کمپنی عمران خان کے لیے چیزوں کو کس طرح ممکن بناتی رہی ہے۔ ممکنہ طور پر ان چیزوں میں مختلف ضمنی انتخابات کے نتائج بھی شامل ہوں گے۔

پانچویں یہ کہ عمران خان کو تاحال بوجوہ سپریم کورٹ اور دوسری اعلیٰ عدالتوں کے متعدد ججوں کی پشتی بانی دستیاب ہے۔ اس عدلیاتی پشتی بانی کو قائمیہ کی پشتی بانی کی طرح سازباز تو کہا جا سکتا ہے، مگر سیاست کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے پیچھے وہی فسطائی اور نفسیاتی عوامل کارفرما ہیں، یا پھر کچھ مخصوص مفادات مخفی ہو سکتے ہیں، مگر اس کے ضمن میں آئین و قانون کی بالادستی کے دعوے پر شمہ بھر یقین کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ دعوے کسی مغز کے حامل ہیں، خواہ یہ کسی بھی طرف سے کیے جا رہے ہوں۔

ایک مرتبہ پھر وہی بات کہ کیا اس خلطِ مبحث کے پیدا کرنے والوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سیاست کا اولین اور قدیمی مطلب ہے اپنے جماعتی آئین اور پھر اپنے سیاسی و معاشی منشور کے ضمن میں لوگوں کی حمایت اور وفاداری حاصل کرنا، تاکہ انتخابات کے ذریعے حکومت میں آ کر اس آئین اور منشور پر عمل درآمد کیا جائے۔

کیا اس خلطِ مبحث کے بانیان یہ بتانا پسند کریں گے کہ عمران خان کا سیاسی اور معاشی منشور کیا تھا اور عمرانی حکومت میں اس پر کتنا عمل درآمد ہوا، اور یہ بھی کہ اب آئندہ کے لیے اس کا سیاسی اور معاشی منشور کیا ہے۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کا منشور یک نکاتی ہے: عمران خان کو دوبارہ وزارتِ عظمیٰ کے تخت پر متمکن کیا جائے اور تاحیات۔ بلکہ شاید بعد از حیات بھی۔

یہاں ایک اور وضاحت ضروری ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت کے لیے لوگوں کی حمایت ماپنے کا آخری دستیاب پیمانہ یقیناً منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں۔ اور محض دعوے، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔ کیونکہ یہی حمایت اصل میں جمہوریت اور جمہوری کلچر کی بنیاد ہے۔

اور ہاں، پروپیگنڈے کو انتخابات کے پیمانے کا متبادل تو ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جبکہ اول روز سے تاحال عمرانی کاوش محض پروپیگنڈے پر ہی مشتمل ہے۔

اس کا تازہ ترین مظاہرہ فروری 2024 کے عام انتخابات ہیں۔ آج جتنا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور یہ جو پہاڑہ دہرایا جا رہا ہے کہ عمران خانی جماعت بالخصوص پنجاب میں سادہ اکثریت حاصل کر چکی تھی، مگر اسے ہرایا گیا اور ن لیگ کو جتوا کر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت بنوائی گئی، وہ صرف اور صرف جھوٹ کی تکرار کا نتیجہ ہے اور لوگ اس جھوٹ پر یقین کرنے لگے ہیں۔

ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔

کچھ وٹس ایپ گروپوں میں ایک پوسٹ ہر چند ماہ بعد شیئر کی جاتی رہی ہے۔ اس میں ایک لِنک بھی موجود ہے، اور اس سے پہلے پوسٹ کے نفسِ مضمون کی کچھ تصیل بھی۔ اس پوسٹ کی ابتدائی سطریں بتاتی ہیں: بھارتی سپریم کورٹ نے گذشتہ روز ایک آل انڈیا ٹیکس پیئرز آرگنائزیشن قائم کی ہے، اور ہر حکومت پابند ہو گی کہ وہ مفت اشیا کی فراہمی کے اعلان سے قبل اس تنظیم سے منظوری لے۔

جب یہ پوسٹ پہلی مرتبہ میری نظر سے گزری تو مجھے اس کی ابتدائی سطروں میں بیان کیا گیا بھارتی سپریم کورٹ کا اقدام، کامن سینس  اور سیاسی منطق کے خلاف، اور بڑی حد تک اشتعال انگیز معلوم ہوا۔ میں نے اس کی تفصیل دیکھنے کی خاطر دیے گئے لِنگ پر کلک کیا اور اصل خبر کو اول سے آخر تک پڑھا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ پوری خبر میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں تھا، جسے اس افسانے کا عنوان بنا دیا گیا تھا۔

کئی ماہ بعد اسی پوسٹ کو ایک اور گروپ میں شیئر کیا گیا۔ اور کوئی سال سے زیادہ عرصے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسی گروپ میں کسی اور صاحب نے شیئر کیا۔

میں نے اسی گروپ اور دوسرے گروپ میں اس پوسٹ کی حقیقت کو بیان کیا۔

لیکن جو بات میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ ہے کہ کسی بھی گروپ میں کسی بھی رکن نے اس پوسٹ کی تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جو اضافی مضمون اس پوسٹ کے ساتھ نتھی کر دیا گیا تھا، اسے پڑھا، اس پر یقین کرلیا اور آگے چل دیے۔

یقین کیجیے ایک گروپ تو نہایت تعلیم یافتہ اور ماہرین اور دانشوروں پر مشتمل ہے۔

مگر کسی نے بھی دیے گئے لِنک پر کلک نہیں کیا اور اصل خبر کو دیکھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔

جیسے بھی ہوا، جس نے بھی کیا، یہ ایک بہت اچھوتا حربہ تھا ایک غلط بات یا اپنی خواہش کو سچ بنا کر پیش کرنے کا۔

کیونکہ بالعموم ہوتا یہی ہے، اور یہ فطری بھی ہے، اور ممکن بھی نہیں، کہ ہم ہر ہر خبر کی تفصیل میں جانا اور اسے پرکھنا شروع کر دیں۔ مگر چونکہ میں نے اپنی تربیت اس طریق پر کی ہے اور ایک تنقیدی نظر کو تیار کیا ہے اور چونکہ مجھے اس متذکرہ پوسٹ کا منسلکہ متن خلافِ عقل معلوم ہوا، تو میں نے اس کی اصل کو جاننے کا جتن کر لیا۔

جبکہ معمول یہ ہے کہ لاتعداد لوگ بنائی گئی، گھڑی گئی، تراشی گئی، اور خلط ملط کی گئی چیزوں اور باتوں پر اسی طرح یقین کر لیتے ہیں، جیسا جھوٹ ساز اور ملمع ساز کا منشا ہوتا ہے۔

اور اب تو ویوز، لائیکس، وغیرہ، اور پھر اشتہارات کا بھوکا میڈیا نو بہ نو حربے استعمال کرنے لگا ہے۔ کس کس چیز کی نشاندہی کی جائے۔

یہ تو ایک پرانا کارہ ہے کہ عجیب و غریب بات کہو، الزام لگاؤ، بہتان دھرو، اور اس کے ساتھ سوالیہ نشان جوڑ دو۔

کسی بات یا خبر کی پوری تفصیل سچائی سے معمور رہے، مگر اس ’’ہنر‘‘ میں تھوڑے سے ’’عیب‘‘ کی طرح ذرا سا جھوٹ شامل کر دیا جائے۔

اور اوپر جس پوسٹ کی مثال دی گئی، وہ تو اپنی جگہ ایک ایجاد ہے۔

ایک اور چیز کا ذکر کیے بغیر، عمران خانی ’’سیاست‘‘ کی فسطائی خصوصیات کا بیان مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہ ہے گالم گلوچ، بد زبانی، سینہ زوری، دھونس دھاندلی، دھمکی، اور سب سے بڑھ کر تشدد اور تشدد کی دھمکی۔

عمران خانی ’’سیاست‘‘ میں یہ خصوصیت بہت شروع سے عیاں تھی۔ اس کی پشت پر قائمیہ کی شہ موجود تھی۔ اور قائمیہ اور پھر عدلیہ کے ہی زیرِ اثر قانون کی بے بسی۔ یعنی عمران خان پر کوئی قانون لاگو نہیں کیا گیا۔ ورنہ اس برائی کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اُکھیڑ پھینکا جانا، یا اُکھیڑ پھینک دیا جانا ضروری تھا۔ اور اسی چیز نے عمران خان کو کھُل کھیلنے پر ابھارا۔

آخرِ کار عمران خانی سیاست میں تشدد کا یہ عنصر اس قدر بڑھا کہ عمران خان کے مخالفین، وہ کہیں بھی تھے، میڈیا میں، یا عدالتوں میں، یا سیاست میں، یا عام افراد، ان میں سے اکثر خوفزدگی کا شکار ہو گئے۔

پھر یہ بھی کہ جس نے بھی عمران خانی ’’سیاست‘‘ سے ذرا سا اختلاف کیا، (ان کی اپنی یعنی عمران خانی جماعت کے لوگوں سمیت، اور ان میں قومی اور صوبائی اسیمبلیوں کے ارکان بھی شامل تھے اور ہیں) اسے بدسلوکی، بدزبانی، اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے اہلِ خانہ اور خاندان والوں کی بے عزتی کی گئی اور گھروں پر حملے تک کروائے گئے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ایک ’’رین آف ٹیرر‘‘ (دہشت کا غلبہ) پھیلایا گیا۔

متذکرہ خلطِ مبحث کے دعوے داروں کو بتانا ہو گا کہ کیا ’’سیاست‘‘ اسے کہا جاتا ہے۔ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کو پرتشدد ’’سیاست‘‘ میں ہرایا جائے۔ یعنی کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تشدد کی سیاست کا جواب تشدد سے دیا جائے۔

یعنی کیا ملک میں ایک خانہ جنگی شروع ہو جائے۔ عمران خان تو یہی چاہتا ہے۔ تو کیا اس خلطِ مبحث کو جنم دینے والے بھی یہی چاہتے ہیں۔ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ انھوں نے اس خلطِ مبحث کو اسی لیے جوڑا بنایا تا کہ یہاں ایک خانہ جنگی اور تباہی کا کھیل کھیلا جا سکے۔

ویسے عمران خان نے تو اپنی پوری کوشش کر ڈالی کہ اگر وہ نہیں، تو اس ملک و معاشرے کا مقدر خانہ جنگی اور تباہی بن جائے۔

اس ضمن میں سب سے بڑی شہادت 9 مئی (2023) کے سانحات ہیں۔ جبکہ ایک بغاوت برپا کرنے اور برپا کروانے کی کوشش کی گئی، جو ناکام رہی۔

اور یہ شہادت بذاتِ خود اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ عمران خان کے ساتھ کتنے لوگ ہیں۔ کیونکہ اگر حقیقت وہ ہوتی، جیسا کہ عمران خانی افترا پرداز بتاتے ہیں، تو 9 مئی کو فوج کے اندر بغاوت ہوتی نہ ہوتی، مگر لوگوں کا جمِ غفیر اُٹھ کھڑا ہوتا، اور بغاوت ہو جاتی، اور اب وہ کچھ ہو رہا ہوتا، بلکہ ہو چکا ہوتا، جو عمران خانی منصوبہ سازوں نے بغاوت کی کامیابی کی صورت میں سوچا گیا ہو گا۔

آیا اس خلطِ مبحث کے قائلین یہ چاہتے ہیں کہ اسی نو ع کی عمران خانی ’’سیاست‘‘ کو اسی نوع کی سیاست سے شکست دی جائے۔ یا اس قسم کی پُر تشدد سیاست کو پُرامن سیاست سے شکست دی جائے۔

خیر، اس برس فروری میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کے ضمن میں افتراپردازوں نے اب جو تکرار زبان زدِ عام و افتراسازان، اینکران، تجزیہ کاران، دانشوران بنا دی ہے، وہ یہ ہے کہ فروری کے انتخابات میں عمران خانی جماعت کو بڑے پیمانے پر ہرایا گیا۔ یعنی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو جو ووٹ اور نشستیں ملیں، وہ سب جعل سازی کا نتیجہ ہیں۔ اور یہ کہ اصل میں پاکستان کے ہر ووٹر نے بس عمران خان کو ووٹ ڈالا۔

اس ضمن میں اتنی عرض کافی ہے کہ انتخابات کے نتائج کے فوراً بعد ٹی وی چینلوں پر، اخبارات میں، اور سوشل میڈیا پر جو رپورٹیں اور تجزیے پیش کیے گئے تھے، ان پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ وہ سب کیا بیان کر رہے تھے۔

وہ سب رپورٹیں اور تجزیے اس وقت جو کچھ بیان کر رہے تھے وہ یہ تھا کہ پنجاب میں ن لیگ کو زیادہ ووٹ اور زیادہ نشستیں مل رہی تھیں، مگر ن لیگ کو اوقات میں رکھنے کے لیے اس کی سیٹوں کی کتربیونت کی گئی۔ اور یہ کہ انتخابات بیشتر منصفانہ اور شفاف تھے۔

اس ضمن میں بطورِ خاص طلعت حسین کے یوٹیوب ولاگ دیکھنے لائق ہیں۔ اور گیلپ پاکستان کا ’قبل از انتخابات جائزہ‘ (پری پول سروے) چشم کشا ہے، جو جنوری 2024 میں کیا گیا، اور گیلپ پاکستان کی ویب سائیٹ پر دستیاب ہے۔ اس کی شرح دیکھنا چاہتے ہیں تو ’’دا نیوز انٹرنیشنل‘‘ میں 15 فروری کو شائع ہونے والا ایک مضمون ملاحظہ کر لیجیے۔ اس کے مصنف بلال آئی گیلانی ہیں۔

ایک اور حقیقت جو نظر میں رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ووٹروں اور لوگوں کی سیاسی وفاداری شتابی اور جلد بازی سے تبدیل نہیں ہوتی۔ اس میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ ہاں، ووٹروں کا ایک متذبذب حصہ ایسا بھی ہوتا ہے، جو اِدھر اُدھر جھولتا ہے یا جھولتا رہتا ہے۔ بالعموم یہ متذبذب ووٹر ہیں، جو کسی امیدوار کی ہار اور جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور ہر جماعت کے بیشتر ووٹ شماریاتی طور پر یکساں رہتے ہیں۔

یہاں یہ چیز بھی نظر میں رکھنا ہو گی کہ ووٹروں کی بڑی تعداد کے ٹولوں کے حجم میں ان ادوار میں کمی بیشی واقع نہیں ہوتی، جنھیں سیاسی طرف داری کے انتہائی ادوار کہا جاتا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ 2011 کے اواخر سے سیاسی طرف داری اپنی انتہاؤں پر پہنچا دی گئی۔ یعنی سیاسی طرف داری کو خونی رشتوں اور انسانی تعلقات کا دشمن بنوا دیا گیا۔ اور یہ بھی عیاں ہے کہ اس صورت کو دن بدن مزید خطرناک بنایا جا رہا ہے۔ یہ یہی سیاسی طرف داری کی بھڑکتی آگ ہے، جو بیٹے کے ہاتھوں باپ کو اور باپ کے ہاتھوں بیٹے کو قتل کروا رہی ہے۔

سو، ایسے حالات میں یہ سمجھنا کہ ووٹروں کے ٹولوں کے حجم میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہو گی، محض خام خیالی ہے۔

کہنے سے مراد یہ ہے کہ قریب ترین انتخابات، 2013 کے ہیں، جنھیں مجموعی طور پر منصفانہ اور شفاف سمجھا جاتا ہے۔ اور جن کے 35 ’’پنکچر‘‘ کبھی دریافت نہیں ہو سکے، اور ان کی قبولیت اور شفافیت کا سب سے بڑا ثبوت یہی 35 پنکچروں کی طوطا کہانی کا جھوٹ اور اس جھوٹ کی تغلیط ہے۔

ان انتخابات میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ووٹوں کو سامنے رکھ لیجیے، اور پھر ان کا موازنہ 2018 اور 2024 کے انتخابات میں دونوں جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں سے کر لیجیے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اور اس میں عمران خانی جماعت کی جو ملاوٹ کی گئی ہے، وہ بھی سامنے آ جائے گی۔

انتخابات 2013 ۔ ن لیگ: ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ چوہتر ہزار ایک سو چار (14,874,104)۔ پیپلز پارٹی: انہتر لاکھ گیارہ ہزار دو سو اٹھارہ (6,911,218)۔ عمران خانی جماعت: چھیتر لاکھ اناسی ہزار نو سو چون (7,679,954)۔ (الیکشن کمیشن)

انتخابات 2018 ۔ ن لیگ: ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ اکیاون ہزار دو سو چالیس (16,851,240)۔ پیپلز پارٹی: انہتر لاکھ ایک ہزار چھ سو پچھتر (6,901,675)۔ عمران خانی جماعت: ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ چھیانوے ہزار تین سو چپھن (12, 896,356)۔ (دا نیوز انٹر نیشنل۔ 29 جولائی، 2018)

انتخابات 2024 ۔ ن لیگ: ایک کروڑ چالیس لاکھ (14 million)۔ پیپلز پارٹی: بیاسی لاکھ چالیس ہزار (8.24 million)۔ عمران خانی جماعت: ایک کروڑ چوراسی لاکھ ساٹھ ہزار (18.46 million)۔ (گیلپ پاکستان)

انتخابات 2024: ن لیگ: ایک کروڑ انتالیس لاکھ ننانوے ہزار چھ سو چھپن (13,999,656)۔ پیپلز پارٹی: بیاسی لاکھ چوالیس ہزار نو سو چوالیس (8,244,944)۔ عمران خانی جماعت: ایک کروڑ چوراسی لاکھ ستاون ہزار پانچ سو سڑسٹھ (18,457,567)۔ (وکی پیڈیا)

نوٹ: چونکہ انتخابات 2018 اور 2024 کے ضمن میں مطلوبہ شماریات الیکشن کمیشن کی ویب سائیٹ پر دستیاب نہیں، با ایں سبب، مجھے گیلپ پاکستان کے ساتھ ساتھ وکی پیڈیا پر انحصار کرنا پڑا۔

جہاں تک انتخابات 2018 کا تعلق ہے، ان کی حقیقت پہلے ہی طشت از بام ہے۔ اور جہاں تک انتخابات 2024 کا معاملہ ہے، مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ عمران خانی جماعت کی قبولیت بڑھی۔ اس کا بڑا سبب قائمیہ کی مخالفت ہے۔ مگر یہ قبولیت محدود ہے۔ خیبر پختونخواہ صوبے میں جو کچھ ہوا، اور جو کچھ جمیعت العلمائے اسلام (ف) ساتھ ہو، وہ ایک جدا کہانی ہے۔ خیر، عمران خان کی قبولیت میں اضافے کے ضمن میں مزید توضیح و توجیہہ سے بحث آگے چل کر آئے گی۔

ایک اور چیز جسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے، وہ متذکرہ انتخابات میں فیض اینڈ کمپنی کا ممکنہ عمل دخل ہے، کیونکہ ابھی اس وقت فیض حمید کی گرفتاری اور فیلڈ کورٹ مارشل کے معاملات واقع نہیں ہوئے تھے۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ن لیگ کو چھانٹا گیا اور قائمیہ کے ساتھ ن لیگ کی شرمناک قربت نے بھی اسے نقصان پہنچایا۔ پیپلز پارٹی نے اپنا مجموعی ووٹ بینک بڑھایا۔

ایک اور عامل جس کی پردہ دری، ابھی چند ماہ ہوئے شروع ہوئی ہے، وہ ہے عمران خانی جماعت کی سرگرمیوں میں فیض اینڈ کمپنی کا عمل دخل۔

ابھی 12 ستمبر (2024) کو رحیم یار خان میں منعقدہ قومی اسیمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات کا نتیجہ معنی خیز ہے۔ یہاں فروری میں عمران خانی امیدوار کو ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے، اور اب محض 58 ہزار سے کچھ زیادہ۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو اب ایک لاکھ سے بڑھ کر ووٹ ملے۔ فروری میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو 49 ہزار ووٹ ملے تھے۔ یعنی چند ماہ میں عمران خانی ووٹ بینک میں کوئی 46 ہزار کے قریب کمی واقع ہوئی۔ اس کا سبب فیض اینڈ کمپنی کے عامل کا عدم اہتمام بتایا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو اس کی توجیہہ کے ضمن میں سوائے سابق دست درازی کے اور کیا امر پیش کیا جا سکتا ہے۔

زیرِ نظر خلطِ مبحث کے خالقوں کو درج ذیل انکشافات کے تانے بانے پر بھی توجہ دینا چاہیے۔

یہ معاملات بھی صحافیوں نے اخبارات کے صفحات اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں، خاص طور پر یوٹیوب پر بیان کر دیے ہیں کہ دس سالہ منصوبہ کیا تھا۔ اس کے قصے تو عمران خانی پیروکار بھی بڑی تڑ کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ سازش یہ تھی کہ آئندہ انتخابات سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر کے پانچ سالہ حکومت کو دس سال تک طوالت دی جائے گی۔ اور اسی منصوبے کے تحت عمران خان نے تاحیات صدر بننا تھا۔

مگر جیسا کہ درباری سازشی ایک دوسرے پر یقین نہیں کرتے، نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ اقتدار کی جنگ ہوتی ہے، اسی طرح، تینوں فریق ایک دوسرے کے خلاف بھی سازشیں بُن رہے تھے۔ اور یوں اصل سازش یا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک فریق اپنا جدا منصوبہ بنا چکا تھا، اور اسں نے مارشل لا لگا کر فیلڈ مارشل بننا تھا، اور پھر عمر بھر کے لیے مقتدر۔

مگر یہ ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ گئی۔ سب کچھ اکارت چلا گیا۔

یہ ہے وہ پس منظر جسے پیشِ نظر رکھ کر قائمیہ کو ہدف بنانے کی عمران خانی کاروائیوں اور کارپردازیوں کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔

تاہم، میری دلچسپی اس چیز میں ہے کہ یہ تینوں فریق اس آئینی اقتدار کو، جسے اصلاً 2018 کے انتخابات کو توڑ مروڑ کر دسترس میں لایا گیا تھا، کس طرح بلا شرکت غیرے اپنے شخصی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ یعنی آئینی دکھاوے کے پردے کے پیچھے کیسا آئین دشمن کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ کیا اس خلطِ مبحث کے معتقدین اس پر کچھ نظرِ عنایت کریں گے۔ یا یہ ان کے نزدیک اس کی کچھ اہمیت نہیں۔

ایک اور نہایت اہم چیز ان سازشوں کی نوعیت اور سازشیوں کے اذہان کو سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کیا یہ تینوں فریق، اور دوسرے جو لوگ (قائمیہ، عدلیہ، انتظامیہ، سیاسیہ سے) ان کے ساتھ منسلک رہے ہوں گے، کیا ان کے ذہنوں میں کہیں آئین اور قانون کا کوئی تصور یا اس کا کوئی شائبہ بھی موجود تھا۔ یا یہ لوگ اپنی مطلق العنان انا کے نشے میں دھُت خود کو مختارِ مطلق سمجھے بیٹھے تھے۔ اور بائیس کروڑ شہریوں کے مقدر سے کس طرح کھُل کھیل رہے تھے۔

یاد رہے کہ جب عمران خانی حکومت کا آئینی اختتام ہوا (ویسے سوچیے کہ اگر کہیں عمران خانی حکومت کا انجام غیرآئینی ہوا ہوتا، تو پاکستان اب تک عراق یا شام بن چکا ہوتا!)، اس کے بعد بد معاشی اور بد قماشی پر مبنی جس عمران خانی ’’سیاست‘‘ کا دور دورہ ہوا، اس وقت بھی میرا یہ نقطہٴ نظر تھا اور آج بھی میں اس نقطہٴ نظر پر قائم ہوں کہ ’’پراجیکٹ عمران‘‘ کے سرکردہ معماروں کو بھی قانون کی شکنجے میں کسیں اور دیکھیں کہ عمران خانی ’’سیاست‘‘ کا جھاگ کیسے بیٹھتا ہے۔ کس طرح ان سب لوگوں کی زبان بندی خود بخود ہو جائے گی، جو عمران خان کے پشتی بان بنے ہوئے ہیں۔

کیونکہ اگر ایسا ہو جاتا یا ایسا کر دیا جاتا، تو عمران خانی ٹولے کے پاس کوئی حیلہ، جواز، بہانہ یا دلیل باقی نہیں رہ جاتی (ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ٹولے کو کوئی جواز، کوئی حیلہ درکار ہی نہیں، اگر درکار ہوتا، تو کیا یہ سب عمران خان کے ٹولے میں شمار ہوتے۔)

اور وقت کا کرنا دیکھیے کہ بالآخر فیض حمید کسی نہ کسی طرح، کسی نہ کسی نوع کے قانون، کسی نہ کسی قاعدے اور ضابطے کے شکنجے میں پھنس ہی گیا۔ اور یہ چیز بھی سامنے آئی کہ فیض حمید کی گرفتاری اور آئی ایس پی آر کی طرف سے ان کے فیلڈ کورٹ مارشل کی تصدیق کے فوراً بعد عمران خانی ’’سیاست‘‘ کا جھاگ خود بخود بیٹھنا شروع ہو گیا۔

ابھی ایک کے کورٹ مارشل سے یہ نتائج برآمد ہوئے ہیں، اگر ’’پراجیکٹ عمران‘‘ کے باقی کرداروں کو بھی، جو ابھی تک گالف کے مزے لے رہے ہیں، آئین اور قانون کے شکنجے میں لے آیا جائے، تو عمران ’’خانی سیاست‘‘ کا بلبلہ ستر اسّی فیصد سکڑ جائے گا۔ بے دلیلوں کے پاس کوئی دلیل باقی نہیں رہ جائے گی کہ صرف عمران خان ہی کٹہرے (اور جیل) میں کیوں؟

چلیں، غنیمت ہے کہ ان میں سے ایک کا، فیض حمید کا، فیلڈ کورٹ مارشل ہو رہا ہے۔ اور ایک دوسرا، بقول طلعت حسین گالف کھیل رہا ہے۔ بلکہ طلعت حسین تو کہتے ہیں کہ ’’پراجیکٹ عمران‘‘ کے ابتدائی کردار بھی گالف سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جبکہ عمران خان اعلیٰ عدلیہ کی چشمِ کرم کی بدولت، بقول عبداللہ طارق سہیل، اڈیالہ جیل کے فائیو سٹار ہوٹل میں قیام پذیر ہے اور وہاں سے اپنی ’’فتنہ پرور سیاست‘‘ کے مہرے آگے پیچھے کر رہا ہے۔

جیسا کہ قبل ازیں یہ ذکر ہوا کہ میرا یہ سوچا سمجھا نقطہٴ نظر تھا اور ہے کہ اب بھی موجودہ اتحادی حکومت تنہا عمران خانی جماعت سے نبرد آزما نہیں ہو سکتی، با ایں سبب، یہ قائمیہ ہی کا لگایا ہوا ناگ پھنی کا پودا ہے یا پھیلایا ہوا زہر اور فتنہ ہے، لہٰذا، اس کا تدارک بھی اسے ہی ساجھتا ہے، اور اس کا تدارک اسی کو کرنا چاہیے، اور اسے خود اپنے اندر سے بھی عمران خانی کالی بھیڑوں سے نجات حاصل کرنا چاہیے۔

اس بڑے خلطِ مبحث سے کئی اور مغالطوں کو جنم دلوایا گیا ہے۔ یہاں ایک کا رد نہایت ضروری ہے۔

یہ تکرار تو کی ہی جاتی ہے کہ عمران خان کو سیاست میں ہرائیں، اس کے ساتھ ایک یہ دلیل نتھی کر دی جاتی ہے کہ دیکھیں نا غیرسیاسی ہتھکنڈوں سے نہ تو ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کو ختم کیا جا سکا، اور نہ ہی نواز شریف اور ن لیگ کو۔

یہ بھی ایک تماشا ہے، اس مصرعے جیسا، یعنی ہاتھ لا استاد کیوں کیسی کہی۔ کہاں ذوالفقار علی بھٹو، کہاں بے نظیر بھٹو کہاں پیپلز پارٹی، اور کہاں یہ عمران خان۔ اسی طرح، کہاں نواز شریف اور ن لیگ، اور کہاں یہ عمران خان۔ یعنی کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔

یہ بالکل انمل بے جوڑ چیزوں کو ایک ٹوکری میں اکٹھا کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اور ان کے ’’قائدین‘‘ سے لاتعداد اختلافات کیے جا سکتے ہیں، مگر پاکستان کی سیاست اور معیشت کے ضمن میں دونوں کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ آپ اس کردار کی مختلف جہات کو بائیں اور دائیں بازو کے سیاسی فلسفے کو سامنے رکھ کر منفی و مثبت قرار دیتے ہوئے مسترد بھی کر سکتے ہیں اور قبول بھی، مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان دو بڑی جماعتوں کا پاکستان کے سیاسی ارتقا میں کوئی مقام و مرتبہ نہیں۔

جبکہ عمران خان اور عمران خانی جماعت محض تباہی و بربادی کی علامت ہے۔ یہ نفسیاتی فسطائیت کی وہ سونامی ہے، جس نے ریاست و حکومت سمیت معاشرے تک کو ایک ایسی آگ میں جھونک دیا ہے، جس سے نکلنا نہ صرف ریاست و حکومت کے لیے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے، بلکہ اس آگ نے معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، اور معاشرے کے ان حصوں کو جو اس آگ سے شدید متاثر ہیں، اس آگ سے صحیح سلامت باہر نکالنا ایک کارے دارد ثابت ہو گا، کیونکہ تاحال اس پر کوئی غور و خوض بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

اب جہاں تک قائمیہ کی طرف سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا نام و نشان مٹانے کی ناکام کوششوں کا تعلق ہے، تو اتنا عرض کرنا کافی ہو گا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں بہرحال سیاسی جماعتیں ہیں (اس ضمن میں میری کتاب، ’’سیاسی جماعتیں یا سیاسی بند و بست‘‘ (2012) دیکھنا مناسب ہو گا۔)۔

جبکہ عمران خانی جماعت ایک نفسیاتی فسطائی رجحان کی علم بردار تنظیم ہے، جس نے سیاسی روپ دھارا ہوا ہے، اور جو فاش قسم کے آئین دشمن، قانون دشمن، اخلاقیات دشمن اقدامات کی بدولت ریاست و حکومت، اور آئینی اور دوسرے اداروں میں بھی سرایت کر گیا۔ مزید یہ کہ جیسا کہ مختلف نفسیاتی رجحانات معاشرے میں ہر لمحہ موجود ہوتے اور موجود رہتے ہیں، اور انھیں جب بھی جیسی بھی سازگار فضا اور ماحول میسر آتا ہے، تو یہ رجحانات پنپنے لگتے ہیں، اور اگر ان کی باقاعدہ آبیاری کی جائے، جیسا کہ عمران خانی نفسیاتی فسطائی رجحان کی آبیاری تمام ریاستی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کی گئی، تو یہ رجحانات بعض اوقات معاشرے کے خاصے بڑے گروہوں پر غالب آ جاتے ہیں، جیسا کہ جرمنی اور اٹلی میں ہوا، اور یوں یہ رجحانات ایک متعدی مرض کی طرح لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتتے ہیں۔

ایک اور بڑا فرق سامنے رکھ لیجیے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے بہرطور پاکستان کے سیاسی ارتقا میں کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ڈالا ہے (اس ضمن میں میری کتاب، ’’سیاسی جماعتیں یا سیاسی بند و بست‘‘ (2012) دیکھنا مناسب ہو گا۔)۔ یقیناً یہ دونوں جماعتیں کوئی آئیڈیل جماعتیں نہیں۔ مگر اپنی تمام ناقابلِ معافی خامیوں، غلطیوں اور کمیوں کے باوجود انھوں نے پاکستان کو سیاسی طور پر کچھ نہ کچھ دیا ضرور۔ اور ان کی یہ معمولی خدمات اس لیے بڑی نظر آتی ہیں، کیونکہ ان جماعتوں نے ایک کلی طور پر دخیل قائمیہ کی ہمہ گیر اور جامع موجودگی کے باوجود ان خدمات کو ممکن بنایا۔ گو کہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجودہے کہ کیا کچھ ہونا چاہیے تھا اور وہ نہیں ہوا، اگر اس پیمانے پر چیزوں کو پرکھا جائے، تو ان غافل جماعتوں کے دفتر میں پیش کرنے کے قابل کوئی عمل کم ہی نظر آئے گا۔

اب ذرا اسی معیار یعنی سیاسی ارتقا کے معیار پر عمران خانی جماعت کو جانچیے۔ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ ابھی عمران خانی جماعت کی عمر ہی کیا ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، یعنی جس میں کچھ خوبیاں ہوں، تو وہ شروع ہی میں ظہورا پانے لگتی ہیں۔

مگر عمران خانی جماعت میں کوئی خوبی ہوتی، تو عیاں ہوتی۔ اور پھر اس کے بعد ہی سیاسی ارتقا کے ضمن میں کوئی پیش رفت ممکن ہو سکتی۔ ہاں، بلکہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی مقدر میں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت دوسری سیاسی جماعتوں اور گروہوں نے جو برائیاں، خامیاں، کمیاں، اور کجیاں لکھیں، عمران خانی جماعت نے انھیں دو چند کیا۔ بلکہ اپنی طرف سے ناقابلِ بیان اور ناقابلِ تصور اضافے کیے۔ اور پاکستان کی سیاست کو صرف زہرآلود نہیں، بلکہ زہر کا ایک جوہڑ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔

سو، عمران خانی نفسیاتی فسطائی جماعت کو نہ تو سیاست میں ہرانے کی ضرورت کا واویلا نہایت گمراہ کن قضیہ ہے۔ اور یہ بھی کہ سیاست میں نہ ہرائے جانے کی صورت میں اس کے باقی رہنے کا کوئی بہت زیادہ امکان بھی نہیں۔ یعنی یہ عمران خانی فسطائیت ایک بھیانک خواب کی طرح ختم تو ہو جائے گی، مگر اس کے اثرات جلد ختم ہونے والے نہیں۔ کیونکہ یہ ہر دو کے لیے ایک بھیانک یاد کی حیثیت سے بہت لمبے عرصے تک موجود رہیں گے، عمران خانی پیروؤں میں (عمران خانی نابودگی) بھی  اور عمران خانی مخالفوں میں بھی۔ بلکہ یہ اثرات پاکستان کی ریاست اور سیاست کی یادداشت میں بھی خاصی مدت تک موجود رہیں گے۔

یعنی سیاست میں عمران خانی فسطائی رجحان کے عمل دخل کو باقاعدہ انداز میں نبیڑ بھی دیا جائے، تو اس کے فسطائی اثرات لوگوں کی نفسیات میں سے اتنا جلد دور نہیں ہوں گے۔ مگر اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنا چاہیے کہ اس کے سیاسی عمل دخل کو سمیٹنا ازحد ضروری ہے۔

خلطِ مبحث کے خالقین اور قائلین جو کچھ بھی کہتے رہیں، سیاست کو نفسیاتی فسطائیت سے پاک کیے بغیر ریاست اور پھر معاشرے کو آئین و قانون اور قواعد و ضوابط کے تحت نہ تو لایا جا سکتا ہے، نہ ہی ڈھالا جا سکتا ہے۔

میرے استدلال کا آخری حصہ ہٹلر کے جرمنی اور مسولینی کے اٹلی کی مثال سے رجوع لاتا ہے۔

جب ہٹلر اور مسولینی اپنی جڑیں وہاں کے معاشروں میں پیوست کر چکے تھے، کیا اس وقت یہ کہا جا سکتا تھا کہ ان کے مخالفین انھیں سیاست میں ہرائیں۔ انھیں انتخابات میں شکست دیں۔ جبکہ وہاں لوگوں کی خاصی بڑی تعداد فسطائی سیاست کا شکار ہو کر نفسیاتی مریض بن چکی تھی۔

اور عیاں رہے کہ وہاں بھی ہٹلر نے جمہوریت کی سیڑھیوں کو استعمال کیا اور ایک فسطائی حکومت قائم کی۔

پاکستان میں بھی ان لوگوں سے قطع نظر، جن کے مختلف النوع مفادات عمران خانی تاخت و تاراج سے جڑے ہوئے ہیں یا انھوں نے اپنے مفادات کسی نہ کسی امید یا غرض میں عمران خانی یورش سے جوڑے ہوئے ہیں، اور یہ لوگ عدلیہ، انتظامیہ، قائمیہ، میڈیا، اور دوسرے شعبوں میں موجود ہیں، کیونکہ عمران خانی حکومت کے دوران پوری سرکاری مشینری میں ہٹلر کے انداز پر عمران خانی کل پُرزے داخل کیے گئے تھے؛ تاہم، ان کے علاوہ، جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے، اور ان لوگوں میں پڑھے لکھے لوگ زیادہ ہیں، جن کے ذہنوں میں یہ خناس سمایا ہوا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر زیادہ عقل مند اور باقی لوگوں سے برتر بھی بن گئے ہیں، یوں وہ دوسرے لوگوں کو، جن کا تعلق دوسری جماعتوں، خاص کر ن لیگ کے ساتھ ہے، خاطر ہی میں نہیں لاتے اور ان کے لیے ان کے پاس گالی کے علاوہ کوئی الفاظ نہیں، اور وہ انھیں کسی قسم کی آزادی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں، جس آزادی کا وہ خود بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔

ان لوگوں کی بیشتر تعداد منفی قسم کے نفسیاتی معاملات اور ردِ عمل کی نفسیات کے الجھاؤ میں پھنسی ہوئی ہے۔ اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشروں میں مختلف قسم کے منفی نفسیاتی رجحانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں، اور جب انھیں سازگار ماحول اور کوئی ایسی شخصیت میسر آ جاتی ہے، جو ان منفی نفسیاتی رجحانات یا امراض کا مجموعہ ہو، وہ اس کے گردا گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ ان کے منفی نفسیاتی عارضوں کو تسکین پہنچاتا ہے۔ ان عوارض میں سادیت اور مساکیت بھی شامل ہیں۔ یعنی دوسروں کی تذلیل و تحقیر اور انھیں تعذیب کا نشانہ بنا کر مسرت حاصل کرنا۔ اور یہ بھی ہوتا ہے کہ تمام عوارض مل کر ایک ایسی خواہش میں ڈھل جاتے ہیں، جو دوسروں کے درپےٴ آزار بن جاتی ہے، بلکہ بعض حالات میں ان کی جان کی دشمن بھی بن جاتی ہے۔

جرمنی میں یہی کچھ ہوا۔ اٹلی میں یہی کچھ ہوا۔ اور خاصے بڑے پیمانے پر۔ کلی طور پر تو بالکل نہیں۔ وہاں یہودیوں کو نشانے پر رکھا گیا۔ اور انسانی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبہ بند قتلام ہوئے۔ اور اپنے ملک اور اپنے شہریوں کے ذہنوں کو نفسیاتی طور پر فتح کرنے کے بعد ہٹلر اور مسولینی کی فسطائیت دنیا پر حملہ آور ہوئی۔

پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوا، مگر بہت محدود پیمانے پر۔ میرے کل استدلال کا ایک بڑا حاصل یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں عمران خان کا فسطائی مظہر ظہور پذیر ہو نہیں سکتا تھا، اگر اسے قائمیہ کی پورے لاؤ لشکر کے ساتھ اور علانیہ مدد نہ ملتی۔ مراد یہ کہ پاکستان کی ریاست، سیاست، معیشت، وغیرہ، کے ساتھ ساتھ، معاشرے میں انسانیت اور انسانی رشتوں کی تباہی کے جرم میں قائمیہ عمران خان کی برابر کی شریک ہے۔ اور وہ تمام لوگ بھی، وہ جو بھی ہیں، جہاں بھی ہیں، جتنی بھی تعداد ہے ان کی، مگر جو قائمیہ اور عمران خان کے ساتھ ملوث ہوئے اور ملوث ہیں۔ یہ سب پاکستان کے شہریوں اور انسانیت کے مجرم ہیں۔

خیریت گزری، اور یقیناً غنیمت ہے کہ پاکستان میں جرمنی اور اٹلی جیسی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ یہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نفسیاتی فسطائی سیاست کا شکار نہیں۔ مراد یہ کہ جو لوگ پیپلز پارٹی، ن لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، جمیعت العلمائے اسلام (ف)، اور دوسری جماعتوں کے ساتھ سیاسی وفاداری رکھتے ہیں، وہ اس بات کی زندہ شہادت ہیں کہ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت فسطائی نہیں بنی۔

اس چیز کا مزید ثبوت یہ ہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں ووٹوں کا تناسب دیکھ لیجیے، سب کچھ واضح ہو جائے گا کہ عمرانی خانی ’’سیاست‘‘ کتنا مقبول ہے۔ اور خاص طور پر اس خلطِ مبحث کے پیدا کرنے والوں کے سامنے یہ بات آ جائے گی کہ فروری 2024 کے انتخابات میں کیا ہوا۔ اور یہ کہ عمران خانی جماعت کی کیا اوقات ہے۔

اگر تینوں انتخابات میں صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی تعداد جمع کر لی جائے، تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ عمران خانی فسطائیت تعداد کے اعتبار سے کس قدر محدود ہے۔

انتخابات 2013 ۔ ن لیگ و پیپلز پارٹی: دو کروڑ سترہ لاکھ پچاسی ہزار تین سو بائیس (21,785,322)۔

انتخابات 2018 ۔ ن لیگ و پیپلز پارٹی: دو کروڑ سینتیس لاکھ باون ہزار نو سو پندرہ (23,752,915)۔

انتخابات 2024 ۔ ن لیگ و پیپلز پارٹی: ایک کروڑ بانوے لاکھ چوالیس ہزار چھ سو (19,244,600)۔

گو کہ 2018 میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مجموعی ووٹوں کی تعداد بیس لاکھ بڑھی، مگر 2024 میں اس میں پینتالیس لاکھ جیسی بہت بڑی کمی واقع ہوئی۔

جبکہ 2024 میں عمران خانی جماعت کے ووٹوں کی تعداد ایک کروڑ چوراسی لاکھ کے قریب رہی۔ اور گذشتہ دو انتخابات میں یہ تعداد بالترتیب چھیتر لاکھ اناسی ہزار اور ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ چھیانوے ہزار تھی۔ یعنی پچپن لاکھ کا اضافہ ہوا۔

دونوں صورتوں میں اس کمی بیشی کی وجوہات پر طول طویل تجزیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہاں جو استدلال پیشِ نظر ہے، اس کے ضمن میں یہ شماریاتی شہادت کافی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مجموعی ووٹ عمران خانی فسطائیت کے ووٹوں سے بڑھ کر ہیں۔ یعنی اول الذکر کی گنتی ایک کروڑ بانوے لاکھ اور موخر الذکر کی گنتی ایک کروڑ چوراسی لاکھ ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ چلیں ووٹوں کی حد تک پاکستان میں فسطائی اذہان کی تعداد محدود ہے۔ اور اگر اس تعداد میں دوسری جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کو جمع کر لیا جائے، جو یقیناً عمرانی خانی فسطائیت کے ووٹ نہیں، تو یہ گنتی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ پاکستان، جرمنی یا اٹلی نہیں بنا۔ نہ بن رہا ہے۔ نہ بنے گا۔ یہاں صاف ذہن لوگ زیادہ ہیں، جو دوسروں کے وجود اور آزادیوں کے لیے اپنی سوچ میں کشادہ جگہوں کے حامل ہیں۔ وہ کم از کم فسطائی نفسیات کے ہتھے نہیں چڑھے، اور اس اعتبار سے نارمل ہیں۔

اور یہ بھی عیاں ہے کہ عمران خانی فسطائی لہر اپنا عروج پا چکی ہے۔ اب یہ زوال پذیر ہے۔ اور اب اسے قائمیہ کی علانیہ شہہ بھی حاصل نہیں رہی، بالخصوص 9 مئی کے بعد اس کے امکانات بہت معدوم ہو گئے ہیں۔

گو کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ یہاں وہاں، اب یا تب، کوئی چھوٹی موٹی لہر پھر بھی بلند ہوتی معلوم ہو، مگر بڑی لہر اپنا زور اور موقع کھو چکی ہے۔ فی الوقت پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں جو وقوعات دیکھنے میں آ رہے ہیں، وہ ایسی ہی چھوٹی لہر کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس نوع کی لہریں عین ممکن ہے کہ ابھی کچھ اور آئینی و ریاستی و حکومتی اداروں، یا سرکاری مشینری کے مختلف حصوں، میڈیا اور سول سوسائیٹی کے مختلف طبقوں میں کلبلا رہی ہوں، اور کسی مناسب موقعے پر چڑھ دوڑیں، مگر یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستانی فسطائیت اپنا وقت اور اپنی عمر پوری کر چکی ہے۔ اب یہ جتنی قسم کے بھی اقدات اٹھا رہی ہے، وہ مایوسانہ بے بسی کا اظہار ہیں۔

تاہم، اَن دیکھے عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے ضمن میں ہوش مندی ضروری ہے۔ کیونکہ عمران خانی فسطائیت گو کہ اپنے آخری دموں پر ہے، مگر یہ ایک طرف مقامی و ملکی سیاست سے متعلق اور دوسری طرف بین الاقوامی سیاست سے متعلق ہر حربہ آزما سکتی ہے۔ جیسا کہ اس کی متعدد مثالیں موجود بھی ہیں۔ عمران خان کا مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ اتحاد۔ امریکہ و برطانیہ سے عمران خان کے حق میں اٹھنے والی آوازیں۔ امریکہ و چین کے مابین سیاسی و معاشی مخاصمت سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے تحت عمران خان کو حاصل ہو جانے والی کچھ حمایت۔

آخر میں یہ بات واضح رہے کہ اس تحریر کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ انتخابات نہ ہوں۔ بلکہ اس تحریر کا منشا یہ ہے کہ ایک منصفانہ اور شفاف انتخابات کی طرف بڑھنے کے لیے جو تقاضے ناگزیر ہیں، ان کی تکمیل کا اہتمام کیا جائے۔

ان تقاضوں میں یہ چیزیں شامل ہیں:

قائمیہ کو اپنے آئینی کردار کی طرف واپس موڑا جائے۔

اعلیٰ عدالتوں کو اپنے آئینی دائرہٴ کار کے اندر رہنے کا پابند بنایا جائے۔

خصوصی اور ماتحت عدالتوں میں سیاسی طرف داریت کی بیخ کنی کی جائے۔

اعلیٰ عدلیہ کو ’’لاہوری گروپ‘‘ سے نجات دلوائی جائے۔

بلکہ پوری ریاستی مشینری کو عمران خانی گھُس بیٹھیوں سے پاک کیا جائے۔

الیکشن کمیشن کو اپنے آئینی فریضے پر توجہ دینے کا پابند بنایا جائے۔

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں پیدا کیے گئے ’’عمران خانی جزیروں‘‘ یعنی ٹی وی چینلوں کو نبیڑا جائے۔

اور اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں نصب کیے گئے عمران خانی کل پُرزوں کو باہر نکالا جائے۔

بالخصوص عمران خان اور عمران خانی جماعت پر قانون کا بے لاگ نفاذ کیا جائے۔

’’پراجیکٹ عمران‘‘ کے تمام کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا کیا جائے۔

معاشرے میں سیاسی طرف داریت کے بخار کو اتارنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

معاشرے کو سیاسی طور پر نارمل ہونے کی طرف لایا جائے۔

تمام پُر تشدد گروہوں اور جماعتوں کو ممنوع قرار دیا جائے۔

الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام پُرتشدد جماعتوں کی رجسٹریشن ختم کی جائے۔

تمام نوع کے جلسوں کے لیے چاردیواری کے اندر انعقاد کا قانون بنایا جائے۔

تمام جلوسوں کے روٹ اس انداز سے طے کیے جائیں کہ لوگوں کی رزومرہ زندگی اور عمومی ٹریفک میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔

یہ وہ کم از کم تقاضے ہیں، جنھیں پورا کیے بغیر حقیقی طور پر منصفانہ اور شفاف انتخابات ممکن نہیں۔

اور اب آخر میں اس بڑے خلطِ مبحث کے پیدا کرنے اور ماننے والوں سے یہ عرض ہے کہ جمہوریت کا ادارہ بہرحال مہذب لوگوں کے لیے ہے، اور اسی طرح جمہوری سیاست بھی۔ یہ بدمعاشوں اور بدقماشوں کے لیے نہیں۔ کچھ خیال کیجیے، ممولے کو شہباز سے نہ لڑوائیے (ویسے اس مصرعے میں یہ لفظ شہباز یہاں تو بالکل صادق نہیں آتا۔ اس کی جگہ تو کوبرے کو رکھا جائے، تو درست ہو گا)۔

پس نوشت: فسطائیت کی ماہیت اور پھر پاکستان میں اس کے ظہور اور عمران خانی فسطائیت کی نوعیت کو سمجھنے کے ضمن میں دو عدد کتابیں اور ایک عدد فلم مددگار ہو سکتی ہے۔

1.⁠ ⁠Political Ponerology: A Science on the Nature of Evil Adjusted for Political Purposes, by Andrzej Lobaczewski

2.⁠ ⁠The Mass Psychology of Fascism, by Wilhelm Reich

3.⁠ ⁠Movie: A Special Day, directed by Ettore Scola (1977)

[30 ستمبر 2024]

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments