Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

جون ایلیا: ایک پہچان – ایک تاثر

جون ایلیا ایک باغی ہیں۔

وہ کسی سانچے میں فِٹ نہیں بیٹھتے۔

وہ کسی سانچے میں فِٹ بیٹھ ہی نہیں سکتے۔

وہ سانچوں کے لیے نہیں بنے تھے۔ نہ ہی سانچے ان کے لیے۔

وہ خالص باغی ہیں۔

وہ ایک خارِ مغیلاں تھے، جو خود ان کے وجود میں پیوست تھا۔

وہ جس اضطراب، جس احساسِ ناآسودگی کا شکار تھے، خود انھیں بھی اس کی خبر نہیں تھی۔

یہی سبب ہے کہ وہ ہمہ اضطراب، ہمہ احساسِ ناآسودگی تھے۔

وہ ایک ایسا بھالا تھے، جس کا پھل خود ان کے دل کے آر پار تھا۔

وہ خود اپنے گھائل تھے۔

وہ ایک ایسے شکاری تھے، جو خود اپنا شکار ہو گیا ہو۔

وہ انا پسند ہوتے ہوئے بھی اپنی انا پسندی سے مطمئن نہیں تھے۔

وہ لااُبالی اور تلون مزاج تھے۔

وہ ایک شوہر تھے۔ باپ تھے۔ مگر نہیں تھے۔

یہ دنیا داری ان کے شایانِ شان نہیں تھی۔

وہ مترجم تھے۔ اداریہ نویس تھے۔ نثر نگار تھے۔ شاعر تھے۔

مگر وہ کہیں بھی فِٹ نہیں بیٹھے۔

ایک شاعری تھی، جہاں وہ اپنی ہمہ اضطرابی کا اظہار کر سکتے تھے۔ مگر انھوں نے یہ کام بھی بمشکل کیا۔ مگر یہ پیمانہ بھی کم تھا۔

وہ کلاسیکی روایت کی تربیت کے باوجود کلاسیکیت کے سانچے میں سما نہیں سکے۔

وہ رومان پسند تھے، مگر خود اپنے لیے۔ ان کی رومانویت کا محور خود ان کا اپنا وجود تھا۔ یعنی وہ اپنے وجود کے بارے میں حقیقت پسند نہیں تھے۔

وہ ایک خالص نفی پسند تھے۔ جس چیز کا اثبات کرتے، اس کی نفی لازماً کردیتے۔

انھوں نے سماج کو بھی نفی کر دیا تھا۔

وہ گوشہ پسند بھی تھے۔ محفل پسند بھی۔

وہ توجہ بھی چاہتے تھے، اور عدم توجہ بھی۔

توجہ انھیں لبھاتی بھی تھی، اور مضطرب بھی کر دیتی تھی۔

ایک نراج پسند تھے۔ انتشار پسند تھے۔

وہ ضابطہ پسندی کے دشمن اور بے ضابطگی کے دلدادہ تھے۔

وہ سراسر شوریدہ سر تھے۔

ایک ایسے نڈر اور بیباک شخص تھے، جس نے ’’فسطائی بھائی‘‘ کی آمد پر اس کے استقبال کے لیے کھڑا ہونا پسند نہیں کیا۔ فسطائی بھائیوں کی بدسلوکی برداشت کر لی۔

اُن جیسا کوئی اور تھا، کراچی میں؟

ناتواں ہوتے ہوئے بھی وہ بے انتہا دلیر تھے۔ فسطائی بھائی کی دہشت کے سامنے کون کھڑا ہو سکتا تھا کراچی میں!

میرا احساس یہ ہے کہ انھیں کچھ کرنا تھا۔ بہت کچھ کرنا تھا۔ کچھ بڑا کرنا تھا۔ وہ کرنا بھی چاہتے تھے۔ مگر وہ جان نہیں پائے کہ انھیں کیا کرنا ہے، اور یہ یہی لاعلمی تھی، جس نے انھیں جون ایلیا بنایا۔ ایک باغی بنایا۔

جون ایلیا یہی کچھ تھے۔

اور یہ یہی لاعلمی تھی، جس نے ان سے ہر چیز کی نفی کروائی۔ فسطائی جماعت کی نفی بھی۔

مگر کیا یہ لاعلمی تھی۔ نہیں۔ میرے خیال میں ان کے وجود کا مقصود یہی تھا۔ اس لاعلمی کے ساتھ زندہ رہنا کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ لاادریت میں زندہ رہنا۔

میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

اور یہ کرب سہنا، اور سہہ جانا، ہر ایرے غیرے کے بس کا روگ نہیں۔ یہ بذاتِ خود ایک سانچہ ہے۔ ایک باغی کا سانچہ۔ جسے وہ خود بناتا ہے اور جو اس کے ساتھ ہی فنا ہو جاتا ہے۔

جون ایلیا ایک باغی ہیں۔ خالص باغی۔

ان کے لیے نان کنفارمسٹ کی اصطلاح بہت کم ہے۔

بوہیمین کی اصطلاح بھی ان پر نہیں جچتی۔

سعادت حسن منٹو کا کرب معاشرتی ہے۔ جون ایلیا کا کرب داخلی ہے۔

منٹو باہر کے باغی ہیں، باہر سے باغی ہیں۔ جون ایلیا اندر کے باغی ہیں، اندر سے باغی ہیں۔

سعادت حسن منٹو کی طرح جون ایلیا بھی ہمارے باغی ہیں۔ ہمارے گھرانے کے فرد ہیں۔ فیملی ہیں۔ ہم ہیں۔ ہم خود ہیں۔

ہمیں اپنے باغیوں کو سنبھال کر رکھنا ہے۔

[4 نومبر 2025]

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments