آج 7 اگست (2025) ہے۔ صبح اُٹھ کر ناشتہ کرتے ہوئے، لیپ ٹاپ کھولا اور فیس بُک ’’میموریز‘‘ (یاد داشتوں) پر نظر ڈالی تو درجن بھر سے بھی زیادہ پوسٹیں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ یاد آیا اس دن یعنی 7 اگست 2022 کو ایک رو میں بہت کچھ لکھتا چلا گیا۔ اس رو کی تہہ میں غصہ، بے بسی، اور حیرانی کارفرما تھے۔ ابھی آگے ان کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے۔
اصل میں کئی برسوں سے لاوا پک رہا تھا۔ اور گو کہ میں اول روز ہی سے اس ’’عمران خان پراجیکٹ‘‘ کی ممکنہ تباہ کاریوں پر لکھتا اور بولتا چلا آ رہا ہوں، یعنی 30 اکتوبر 2011 سے، جب لاہور میں عمران خان کا جلسہ ہوا۔ مگر مجھ ناچیز کی بات یونانی اساطیر کی اس دیوی (کیسینڈرا) کی طرح ثابت ہوئی، جو مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں درست پیشین گوئی کا ملکہ رکھتی تھی، مگر لوگ اس پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اس نے ٹرائے کی تباہی کے بارے میں بھی بتایا تھا، مگر اس کی بات کو مانا نہیں گیا۔ میری (یا اگر اور کسی نے اس کے بارے میں لکھا اور بات کی، اس کی) بے بسی بھی اسی چیز سے عبارت تھی اور ہے۔
اور جہاں تک غصے کا تعلق ہے، تو وہ یوں مجسم ہوا کہ طاقت ور حلقے یعنی قائمیہ اس وقت کیا کر رہے تھے۔ مراد یہ کہ وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہے تھے۔ مگر طاقت متکبر ہوتی ہے، وگرنہ وہ طاقت ور رہے نہ طاقت ور کہلائے۔ یہی ہو رہا تھا۔ اور پھر نتائج سامنے آنا شروع ہوئے۔ جن کا نقطہٴ عروج 9 مئی 2023 کو ہونے والا بغاوت نما دنگا و فساد تھا۔
ثابت کیا ہوا۔ یہی کہ طاقت اپنی دشمن خود ہوتی ہے۔
اور حیرانی کا قصہ زیادہ عبرت آموز ہے۔
دانشور، تجزیہ کار، کالم نویس، میڈیا مقرر، ٹی وی چینلز، اخبارات، اہلِ مذہب، اہلِ فکر، اہلِ اخلاقیات، اہلِ روایات، اور بیشتر سے بھی زیادہ ایسے لوگ، جو اہلِ اثر و رسوخ سمجھے جاتے ہیں، اور اہلِ سِول سوسائیٹی، سب کے سب پاکستانی ’’ہٹلر‘‘ کو مسیحا بنا کر پیش کر رہے تھے۔
جی، میں بالکل یہی کہہ رہا ہوں کہ بنا کر پیش کر رہے تھے۔ یہ نہیں کہ صرف سمجھ رہے تھے کہ وہ مسیحا ہے۔ یہ سمجھ ان کا داخلی معاملہ تھی اور ہے۔ مگر جب دوسروں کے سامنے اور دوسروں کے لیے کسی کو مسیحا بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تو کُل ذمے داری، اس شخص کے کاندھوں پر آ جاتی ہے، جو کسی کو مسیحا بنا کر پیش کرتا ہے۔
میری حیرانی کے عناصر میں اہلِ عدل کی عقل اور دانائی کا ماتم بھی شامل تھا۔ اور آج بھی ہے۔
میں سوچتا تھا: پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی اوقات یہ شخص ہے، جو کسی نظامِ اقدار پر یقین نہیں رکھتا۔ جو کسی اصول، کسی قاعدے، کسی ضابطے کو نہیں مانتا۔ جو صرف اپنی خواہشوں کا غلام ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ میں نے پاکستانی ہٹلر لکھ تو دیا۔ مگر لکھنے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ کیا اس شخص کا موازنہ ہٹلر کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ درست ہے کہ ہٹلر نہایت ظالم فسطائی تھا۔ مگر اِس شخص کو تو موقع نہیں ملا کہ وہ ظالم بن پاتا، منتقم مزاج تو وہ تھا، گو کہ ایسے شواہد دستیاب ہیں کہ اگر موقع مل جاتا، تو اس کے ہاتھوں نجانے کیا کچھ ظلم و ستم ترتیب پاتے۔ اور ترتیب پائے بھی۔ یاد کیجیے اس وقت کے ڈائریکٹر جینرل فیڈرل انویسٹی گیش ایجنسی (ایف آئی اے)، بشیر میمن کی گواہی۔ کہ کس طرح عمران خان نے انھیں بلا کر خواجہ محمد آصف پر دفعہ 6 کے تحت مقدمہ بنانے کے لیے کہا۔
مگر عیاں رہے کہ پاکستان میں فسطائی، انتقامانہ، اور ظالمانہ رجحانات اتنے قوی نہیں، جتنا جرمنی میں ہوں گے، یا ہٹلر کے سبب قوی ہو گئے ہوں گے۔
اس سے قطع نظر کیا ہٹلر اور عمران خان کا موازنہ کوئی مناسب بات ہو گی۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک صنعتی اور معاشی طاقت بنایا تھا (میں نے یہاں عسکری طاقت بنانے کے ذکر سے گریز کیا ہے، کیونکہ میں اسے قابلِ تحسین نہیں سمجھتا)۔ میں اس معاملے پر بھی اپنی تحریروں اور آڈیو و وڈیو پوڈکاسٹوں میں بات کر چکا ہوں۔
میری یہ حیرانی ختم ہونے میں نہیں آتی کہ یہ جو اہلِ دانش، اہلِ فکر، اہلِ نظر، اہلِ اخلاقیات، اہلِ عقلیات (یعنی جو عقل و خرد کے امین بنتے ہیں)، اہلِ روشنیات (یعنی جو روشن خیالی کے علم بردار بنتے ہیں) ہیں، انھیں کیا ہو گیا تھا۔ اور وہ ابھی تک کیونکر اسی شخص کے اثر و سحر میں گرفتار ہیں۔
میں نے ان معاملات پر بہت لکھا ہے۔ بہت بات کی ہے۔ مگر میری تسلی نہیں ہوتی۔ اطمینان حاصل نہیں ہو پاتا۔ بہت کچھ سمجھا ہے۔ بہت کچھ کھُلا ہے مجھ پر۔ مگر پھر بھی آخر میں یہ احساس ہوتا ہے کہ اہلِ فکر و نظر کو کیا ہو گیا تھا۔ کیا ہو گیا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ بہت کچھ کھُلنے کے باوجود، میرے لیے یہ لوگ بہت بڑا بھید ہیں۔ عقل اور کامن سینس ان لوگوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ (اصل میں تو یہ سارے کا سارا معاملہ نفسیاتی اقالیم سے تعلق رکھتا ہے۔) اور طرفہ تماشا یہ کہ ان کے ساتھ گفتگو بھی ممکن نہیں۔
اور میں اسی نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ یہی چیز پاکستان کا بحران ہے۔ یہی لوگ پاکستان کا بحران ہیں۔
تو جس غصے، بے بسی، اور حیرانی کی رو میں اس دن 7 اگست 2022 کو میں یہ شذرات لکھتا چلا گیا، ان کی تعداد 32 ہے۔ ان شذرات میں وہ سب کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا، اور کہا نہیں گیا، جو میری ذاتی ویب سائیٹ اور یوٹیوب چینل پر موجود ہے۔ یہ شذرات صرف اس حیرانی کا اظہار ہیں، جو پاکستان کے اہلِ فکر و نظر کے طرزِ عمل اور طرزِ فکر پر تھی، اور ہے۔ ان میں سے ایک شذرے میں، میں نے نام بھی لے لیے تھے۔ ان میں سے بڑے بڑے نام یہ ہیں: نصرت جاوید، خورشید ندیم، سلیم صافی، طلعت حسین۔
سلیم صافی اس شخص کو ’’کھوچل‘‘ بتایا اور لکھا کرتے تھے۔ مگر سب کے سب اسے کامیاب قرار دیا کرتے تھے۔ اور ان میں سے کچھ چاہتے تھے اور چاہتے ہیں کہ اسے سیاست کے میدان میں ہرایا جائے۔
توجہ کیجیے: ان میں سے کسی بھی نام سے میری کوئی ذاتی پرخاش نہیں۔ یہ شخصیات پبلک سپیس میں ایک مقام و مرتبے کی حامل ہیں۔ اور میں ان سے فکری اختلاف رکھتا ہوں۔
یہ تحریر ایک مفہوم میں 7 اگست 2022 کو لکھے گئے شذرات کا تتمہ ہے۔
ملاحظہ کیجیے شذرات:
- ایک آدمی جھوٹ پر جھوٹ بولتا جائے،اور دس آدمی واہ واہ کرتے جائیں، تو یہ کونسی کامیابی ہے؟ تجزیہ نگاروں کو کیا ہو گیا ہے؟
- جس نے معاشرے میں انسانی تعلقات کے تاروپود کو بکھیر کر رکھ دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے ایک نسل کی بڑی تعداد کی رگوں میں زہر انڈیل دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے آئین، قانون، اخلاقیات، روایات کو تہس نہس کر دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے پاکستان کی سیاسی، سماجی اور فکری فضا کو مسموم کر دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے اپنے ہر ’’محسن‘‘ کی ’’محسن کُشی‘‘ کی، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے ہر اخلاقی و سماجی قدر کو اپنی خودغرضی کی بھینٹ چڑھا دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے ہر معاشرتی اور تہذیبی روایت کو تہہِ تیغ کر دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے پورے معاشرے میں نفرت کی آگ کو بھڑکا دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے پوری سیاست کو اپنی خواہشوں کے بھٹی میں جھونک دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نےآئین اور قانون کو پامال کیا, طاقتوروں نے اسے قانون کی گرفت سے بچایا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا ڈالا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے بچی کھچی معیشت کو کنوئیں میں دھکیل دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ غیرملکی قرضے لیے، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے پاکستان کے غیرملکی تعلقات کو برباد کر دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جسے طاقتور حلقوں کی سپورٹ حاصل رہی اور وہ من مانیاں کرتا رہا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس کے لیے پورے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو نکیل ڈال دی گئی، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس کے لیے الیکشن کمیشن کو ’’غلام‘‘ بنا دیا گیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس کے لیے انصاف کے ترازو کو سرِ بازار دو کوڑی میں بیچ دیا گیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے پارلیمان پر دھاوا کرنے سے عار نہیں کیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے کونسے قانونی اور اخلاقی جرم کا ارتکاب نہیں کیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جسے طاقتور حلقوں نے کھُل کھیلنے کا لائیسینس دیا وہ کھُل کھیل رہا ہے، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے ہر پل جھوٹ کا بازار گرم کیا، جھوٹ کو بڑھ چڑھ کر پھیلایا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے جو کہا اس سے پھِر گیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس کی سیاست صرف نفرت اور چند مخصوص لوگوں کی نفرت پر مشتمل ہے، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے اپنے حامیوں کو دھوکہ دیا اور انھیں غلط راہ پر لگایا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے خود پارسائیت کے پردے میں فسطائیت کو فروغ دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے سیاست،حکومت،ریاست، عدالت، معیشت کو اپنی ذاتی خواہشوں کی بلی چڑھا دیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جس نے ’’کرپٹ کے احتساب‘‘ کے نام پر بدترین کرپشن کی اور انتقام لیا، یہ کون لوگ ہیں جو اسے کامیاب قرار دے رہے ہیں؟
- جو آئین و قانون کا منحرف ہے، یہ کون لوگ ہیں جو چاہتے ہیں اسے قانون کی گرفت میں نہ لایا جائے بلکہ سیاست میں شکست دی جائے!
- جو اسے کامیاب قرار دیتے ہیں ان میں سے بڑے نام: نصرت جاوید، خورشید ندیم، سلیم صافی، طلعت حسین۔ خود میرے بہت سے دوست۔
- یہ بات کہ اسے سیاست کے میدان میں ہرائیں، تو پھر آئین قانون کو ختم کردیں، اور فری سٹائل سیاست کو کھول دیا جائے سب کے لیے۔
[7 اگست 2025]