Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

ثقافتی منافقت

یہ مقبول نیوز چینلز کے پرائم ٹائم نیوز بُلیٹِن ہیں۔ ان کا ایک سلاٹ، ’اینٹرٹینمینٹ نیوز‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ نہ بھی ہو تو ان نیوز بلیٹن میں بالی ووڈ کی خبریں بڑے طمطراق سے نشر کی جاتی ہیں۔ کونسی فلم ریلیز ہو ئی۔ کونسی ریلیز ہونے والی ہے۔ کونسی فلم کے گانے، یا ساؤنڈ ٹریک ریلیز ہو گیا۔ کس فلم نے کتنا بزنس کیا۔ کونسی فلم بلین روپوں کے کلب میں شامل ہو گئی۔ کونسا اداکار، کس اداکارہ سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ کس اداکار نے کسی دوسرے اداکار کے خلاف کیا کہہ دیا۔ کون کس سے ناراض ہے۔

Read More »

ایک اور ذخمی سانپ

بعض اوقات یہ بات بالکل حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے کچھ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ وہ ملوث ہیں ان طبقات کے ساتھ، یہ نظام جن کے فائدے میں ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ وہ خود ان طبقات کی سیاسی پارٹیاں ہیں، اور بظاہر عام شہریوں کی نمائندہ بنی ہوئی ہیں۔ اس سے بڑی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ سیاسی پارٹیاں شکاری پارٹیاں بن گئی ہیں اور ہر وقت شکارکی تلاش میں رہتی ہیں۔ کچھ پارٹیوں نے تو باقاعدہ شکار گاہیں قائم کر لی ہیں، اور وہاں کوئی دوسرا شکاری

Read More »

پاکستان کی غیرآئینی تاریخ: ایک مختصر خاکہ

”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں مجھے اداکاری نہیں آتی۔ اگر مجھے سیاسی اقتدارکی خواہش ہو تو روکنے والا کون ہے۔ فوج میرے ساتھ ہے اور میرے پاس طاقت ہے، جو جی میں آئے کروں۔ آئین کیا ہوتا ہے؟ دس بارہ صفحات کا ایک کتابچہ۔ میں کل ہی اسے پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں اور ایک نئے نظام کے تحت حکومت شروع کر سکتا ہوں۔ کون ہے جو مجھے روکے۔“ (جینرل محمد ضیاءالحق)    مورخین نے پاکستان کی متعدد آئینی تاریخیں لکھی ہیں، اور مستقبل میں بھی ایسی تاریخیں لکھی جائیں گی۔ لیکن تاحال پاکستان کی غیرآئینی تاریخ لکھے جانے کا

Read More »

کم سِن سیاست کی کہانی: 1857 سے 2012 تک

نوٹ: یہ کالم 24 نومبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔ تاہم، جیسا کہ اخبارات کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، اس کے آخری دو پیرے تبدیل کر دیے گئے۔ یہ تو کچھ مجھے شک بھی تھا کہ اس کالم کی آخری سطور مِن و عَن شائع ہوں گی یا نہیں، اسی لیے میں نے ذرا نظر ڈالی تو معلوم ہوا، یہ پیرے غائب ہیں۔ اب پہلہے کالموں کے ساتھ کیا ہوا، میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر یہاں اس بلاگ پر روزنامہ مشرق پشاور میں چھپنے والے جو بھی کالم پوسٹ کیے گئے ہیں، وہ سب اصل ورشن ہیں۔ موجودہ کالم،

Read More »

قانون کی حکومت یا قانون ساز کی حکومت

انسانی دنیا کے فیصلے تصورات کی دنیا میں ہوتے ہیں۔ طاقت اور کمینگی سے کام لے کر کچھ بھی کرلیا جائے، اگر وہ تصورات کی دنیا میں غلط ہے تو وہ نہ صرف غلط رہے گا، بلکہ ایک دن عملاً غلط قرار پائے گا۔ جیت، سچائی اور درست تصورات کی ہمدم ہے، طاقت اور کمینگی کی نہیں۔ مراد یہ کہ جتنے بھی مارشل لا لگ جائیں، اور اسلحے کی طاقت سے اپنی جو بھی باتیں منوا لی جائیں اور آئین کا حصہ بنا دی جائیں، او ر اس کے ساتھ ساتھ منتخب نمائندے اپنی وفاداریوں اور مفادات کی ساز باز

Read More »

پسماندگی کی کتاب

پاکستان کے ذہنی وفکری منظر کو پسماندگی کی کھلی کتاب کا نام دیا جا سکتا ہے! اس کالم کی تقریب اسی اخبار میں 10 اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر ہے۔ باچا خان یونیورسیٹی، چارسدہ، میں پاک ایشیا بک کارپوریشن کے تعاون سے تین روزہ کتاب میلہ منعقد کیا گیا۔ خبر کے مطابق میلے میں 50 سے زیادہ مضامین پر پانچ لاکھ سے بھی زیادہ کتابیں نمائش کی گئیں، اور طلبہ اور اساتذہ کا ذوق وشوق، قابلِ دید تھا۔ میلے کا افتتاح کرتے ہوئے یونیورسیٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فضل رحیم مروت نے جو الفاظ ادا کیے، ایسے موقعوں پر بالعموم جن رسمی

Read More »

جدید ریاست اور آئین کی بالادستی کا اصول

گذشتہ کالم، ”قدیم ریاست اور آئین کی بالادستی کا اصول“ میں یہ بحث کی گئی تھی کہ جدید ریاست کوئی خلا سے نازل نہیں ہوگئی، بلکہ اس کے بنیادی خطوط اسی قدیم ریاست کے دوران تشکیل پانا شروع ہوگئے تھے۔ کاروبارِ مملکت کو موثرانداز میں چلانے کے لیے مطلق العنان حکمرانوں کو بھی قانو ن اور قواعد وضوابط وضع کرنے پڑتے تھے، اور جب یہ قاعدے قانون ایک مرتبہ وضع ہو جاتے تو انھیں ختم کرنا یا تبدیل کرنا، محض بادشاہ کی خواہش اور مرضی پر منحصر نہیں رہتا تھا۔ یہی چیز تھی، جس نے قانون کی بالادستی کی بنیاد رکھی۔ رفتہ

Read More »

قدیم ریاست اورآئین کی بالادستی کا اصول

آئین کی بالادستی کا اصول، جدید ریاست کی اساس ہے۔ تاہم، ابھی جب آئینی ریاستیں وجود میں نہیں آئی تھیں، تب بھی (یعنی قدیم ریاستوں میں بھی) یہ اصول کسی نہ کسی صورت میں کارفرما اور موجود ضرور تھا۔ مراد یہ ہے کہ جب بادشاہ خود قانون تھا، یا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ کی زبان سے جو لفظ ادا ہو جاتا تھا، وہ قانون بن جاتا تھا، تو ایسے میں یہ قانون ہی تھا جو بالادست قرار پاتا تھا۔ یعنی جب بادشاہ کوئی قانون بنا دیتا تھا تو بالعموم وہ اس کی پاسداری کرتا تھا۔ گو کہ

Read More »

اورنگ زیب عالمگیر کے اخبار نویس

اورنگ زیب برخلاف اپنے تین بھائیوں کے ایسا متین شخص تھا کہ پابندی شرع کے لحاظ سے ملکی جوڑ توڑ کے سوا دوسرا خیال نہ رکھتا تھا۔ جابجا پرچہ نویس بٹھائے ہوئے تھے۔ ہر طرف کان لگائے رکھتا، بلکہ ہر بات کی پیش بندی برسوں پہلے کرتا۔ جب باپ، بھائیوں اور سب طرف سے خاطر جمع ہوئی، تو اورنگ زیب عالمگیر نے چاہا کہ اپنی عالمگیری کو ملک ِ دکن کے اضلاع میں پورا کرے۔ ان ریاستوں میں ابوالحسن تانا شاہ حیدرآباد گولکنڈے کا بڑا صاحبِ اقتدار اور عالی دماغ بادشاہ تھا۔ چونکہ بادشاہ مذکور عالمگیر کے ساتھ بھی عہدوپیمان

Read More »

سیاست کے شہزادے اور شہزادیاں

فاربس کی مرتبہ فہرست کے مطابق بِل گیٹس، امریکہ کے امیر ترین اور دنیا کے دوسرے امیر ترین فرد ہیں۔ وہ 1995 سے لے کر 2009 تک دنیا کے امیرترین فردشمار ہوتے تھے۔ مارچ 2012 تک کے اعداد وشمار کی رو سے وہ 61 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔ ارب پتی بننے کے بعد سے اب تک وہ 28 بلین ڈالر چیریٹی میں دے چکے ہیں۔ وہ اپنی کمپنی ”مائیکروسافٹ“ کے قیام کے وقت (1975) سے، اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تھے، پر 2008 میں انھوں نے اس عہدے کو چھوڑ دیا تاکہ جو چیریٹی فاؤنڈیشن ان کی اہلیہ اور

Read More »

ملالہ اور پاکستانی ریاست کا مائنڈ سیٹ

غیرا خلاقی، غیر قانونی اور غیر آئینی خوراک پر پلنے والی ریاستیں، شکاری ریاستیں ہوتی ہیں۔ یہ ہمیشہ تاک میں ہوتی ہیں کہ کوئی ایسا ایشو، کوئی ایسا معاملہ، کوئی ایسا مسئلہ، کوئی ایسا حادثہ، کوئی ایسا سانحہ وقوع میں آئے، اور جب ایسا کچھ ہوجاتا ہے، یہ اسے فوراً شکار کر نا چاہتی ہیں۔ خواہ یہ کوئی قدرتی آفت ہو، جیسے کہ سیلاب یا زلزلہ، یا کوئی ایسا حادثہ یا سانحہ یا واقعات کا کوئی ایسا سلسلہ، جس میں بالخصوص عام شہریوں کو جان ومال کا نقصان اٹھانا پڑے، اور خواہ یہ حادثات یا سانحات، خود اس کی اپنی

Read More »

قدریں ـ اور ’’جٹ دا ویَر‘‘

گذشتہ سال عید کا دن (یکم ستمبر) تھا، اور ان دنوں کراچی میں امن و امان کے حالات بہت خراب تھے۔ دلبرداشتہ، سابقہ ’’اردو بلاگ ـ سب کا پاکستان‘‘ کے لیے میں نے ’’کراچی کا مقدر‘‘ لکھا۔ اور اس کے بعد ایک ٹی ـ وی چینل پر پنجابی فلم ’’جٹ دا ویَر‘‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ درج ذیل پوسٹ اس فلم کا ریویو سمجھ لیجیے۔ قدریں ـ اور ’’جٹ دا ویَر‘‘ کسی فلم اور وہ بھی پنجابی فلم پر ریویو لکھنے کی اگر کبھی خواہش پیدا ہوئی تو وہ ’’مولا جٹ‘‘ تھی۔ اور اس پر ریویو ابھی تک التوا کا شکار

Read More »

تاریخ اور نظریۂ سازش

یہ بس اتفاق ہے کہ آج میں اپنی ایک پرانی تحریر تلاش کر رہا تھا، اور درج ذیل تبصرہ سامنے آ گیا۔ یہ میری یادداشت سے بالکل محو ہو گیا تھا۔ سابقہ انگریزی پوسٹ، جو ”پاکستان میں سازشی نظریا ت کی آفاقیت“ سے تعلق رکھتی ہے، اس میں بھی مختصراً اسی نظریے پر بات کی گئی ہے۔ اس پوسٹ میں زاہد چوہدری اور حسن جعفر زیدی کی کتاب، ”پاکستان کیسے بنا“ سے متعلق ایک تقریب اور اس میں ہونے والی گفتگو کا ذکر اور پھر مجموعی طور پر اس اندازِ فکر کے بارے میں میری رائے بھی موجود ہے۔ جیسا

Read More »

سیاسی پارٹیاں اور لوٹ مار کا ایجینڈا

گذشتہ دوکالموں میں جو ہوش ربا کہانیاں بیان ہوئیں، ان سے آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ دل دہلا دینے والی حیرانی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ یا یہ محض افسانے ہیں۔ لیکن ایسا ہوا ہے۔ ایسا ہو رہا ہے۔ یہ خبریں اخبارات کے صفحات اور ٹی- وی چینلز کی سکرینوں پر ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ اور یقینا ایسی بہت سی خبریں ہوں گی، جو بوجوہ قلمبند نہیں ہو پاتی ہوں گی۔ یہ دو خبریں، یا سٹوریاں تو میں نے خود پڑھی اور سنی ہیں۔ میں یہ اعتراف بھی کرلوں کہ میں ایک معمولی

Read More »

اشرافیہ کے طُرے

بے چارے عام لوگ بال کاٹیں تو حقارت سے نائی، حجام کہلائیں۔ خواص بال کاٹیں تو فخر سے ڈیزائینر ہیئر ڈریسر کہلائیں۔ بہت سے کا م ہیں، جیسے کہ درزی کا، نانبائی کا، جو عام لوگوں کو تحقیر کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ کوئی کچھ کہتا رہے، زندہ بھی تو رہنا ہے۔ خواص یا اشرافیہ کا مسئلہ زندہ رہنا نہیں، بلکہ سٹائل سے زندگی گزارنا ہے۔ وہ جو بھی کرتے ہیں، سٹائل بن جاتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ نائی سے بال کٹوانے میں مزا نہیں آتا، کوئی سٹائلِش ہیئر ڈریسر ہونا چاہیے۔ عام سی بیکری سے کیک لیا تو

Read More »

ریاستی اشرافیہ کا پاکستان ـ 1

وسیم سجاد کے صاحبزادے بیرسٹر حسن سجاد وزیرِ داخلہ رحمان ملک کے ایڈوائزر مقرراسلام آباد (این این آئی) سابق صدرِ مملکت وچیئر مین سینیٹ وسیم سجاد کے صاحبزادے بیرسٹر حسن سجاد کو وزیرِ داخلہ رحمان کا ایڈوزئزر مقرر کر دیا گیا۔ اس ضمن میں نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ بیرسٹر حسن سجاد نوجوان قانون دان ہیں اور سیاسی معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔ [روزنامہ مشرق پشاور،15 اکتوبر، 2012]

Read More »

حلوائی کی دکان یا پاکستان

یہ کالم مثالوں کے ساتھ ایک ضرب المثل کی تشریح سمجھ لیجیے۔ مثل ہے: حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ۔ فرہنگِ آصفیہ میں اس کا مفہوم یوں بیان کیا گیا ہے: (کہاوت) پرائے مال کو اپنا سمجھ کر صرف میں لانے یا غیر کا مال بے دریغ صرف کرنے کے موقع پر بولتے ہیں۔ نوراللغات اس کہاوت کے مفہوم میں یہ اضافہ کرتی ہے: گِرہ کا کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ اب کچھ مثالیں دیکھیے۔ 5 اکتوبر کو ٹاک شو، ”آج کامران خان کے ساتھ“ میں بتایا گیا: ’ایک بڑا دلچسپ معاملہ ہے، انتظامی معاملہ ہے، سیاسی نہیں، 82

Read More »

مملکتِ اشرافیہ پاکستان، مبارک ہو!

چینی کے برتن کتنے خوبصورت اور نازک ہوتے ہیں۔ یہ جب ٹوٹتے ہیں، کتنا عجیب چھناکا اور کتنا دکھ ہوتا ہے۔ اگر کسی چائنہ شاپ میں بیل جیسا جانور آ گھسے توکتنے چھناکے اور کتنے دکھ کرِچی کرِچی ہوجاتے ہیں۔ یہی سوچ ”چائنہ شاپ میں بیل“ کے انگریزی محاورے میں رچی بسی ہے۔ پاکستان بھی ایک چائنہ شاپ ہے، اور اس کے حکمران طبقات، بلکہ حکمرانی کرنے والی اشرافیہ ایک بیل ہے، ایک بدمست بیل، جو اس شاپ میں سجے چینی کے خوبصورت اور نازک برتنوں کی توڑ پھوڑ کررہا ہے۔ محاورے کا بیل تو شاید کچھ مہذب ہو، کیونکہ

Read More »

”پیکار – میری شاعری“

میری طبیعت شروع ہی سے موزوں تھی، اس با ت کا مجھے تب پتہ چلا، جب میں نے گورنمینٹ کالج لاہورمیں داخلہ لیا۔ وہاں اقبال نواز سے دوستی ہوئی، وہ بھی شاعری کرتے تھے۔ انھیں سے میں نے اوزان اور بحور کے بارے میں سنا۔ میں نے انھیں اپنی شاعری دکھائی، اور پوچھا، یہ ٹھیک ہے تو وہ کہنے لگے، جی یہ توآپ پہلے ہی صحیح لکھ رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا، نہیں آپ مجھے وزن اور بحر سکھائیں۔ انھوں نے خود بھی بتانا شروع کیا، اور مجھے اپنے استاد، استاد تکلم نواز تکلم کے پاس لے گئے۔

Read More »

ریاستی منافقت

بچوں کا مقدر والدین، اور شہریوں کا مقدر ریاست ہوتی ہے! وضاحت اور تفصیل اس قضیے کی یہ ہے کہ بچے جس طرح کے والدین کے گھر پیدا ہوں گے، اسی طرح کا ان کا مقدر ہوگا۔ کسی بچے کے والدین، جس طرح کے تصورات، خیالات، اصول و اقدار، طور اطوار، رہن سہن، عادات وخصائل، اور زبان وبیان کے حامل ہوں گے، وہی کچھ وہ بچہ سیکھے گا۔ یا یہ کہ وہی کچھ وہ بچے کو سکھائیں گے۔ یہی اس کا مقدر بن جائے گا۔ گو کہ یہاں یہ بات خود مشکوک ہے کہ کتنے والدین شعوری طور پر بچے

Read More »

شخصی حکومت یا آئین اور قانون کی حکومت

جب سے پاکستان بنا ہے تب سے ہی ایک کشمکش مسلسل موجود ہے ۔ یہاں میں یہ کہنے سے گریز کروں گا کہ یہ کشمکش کن طبقات یا گروہوں کے درمیان ہے، گرچہ یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی یہ کہ خود یہ کشمکش کیا ہے ۔ یہ کشمکش ایک انتہا ئی  بنیا دی سوال کے گرد گھوم رہی ہے: یعنی یہ کہ پاکستان کو کسی آئین اور قانون کے تحت چلایا جائے یا کسی بھی طبقے یا گروہ کی مرضی کے مطابق ۔ موجودہ ’بحران‘ (ہفتہ، 13 فروری 2010) جو ججوں کی تقرری سے متعلق ہے، اسی بڑے سوال کا

Read More »

سرکاری جونکیں

پاکستان کی ریاست ایک ایسا جوہڑ ہے، جس میں سڑتے پانی کو حکومتوں کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ کہنے کو یہ حکومتیں دوچار پانچ سال بعد تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن درحقیقت کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ حکمرانوں کے چہرے بد لتے ہیں، شہریوں کے حالات نہیں بد لتے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا جوہڑ، ہر باراسی سڑے پُر تعفن پانی سے بھر دیا جاتا ہے ۔ اس سڑے پانی میں پلنے والی جونکیں، حکمران سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار اور حکومتی اہلکار ہوتے ہیں ۔ یہ جونکیں شہریوں کا خون چوس کر زندہ رہتی

Read More »

دولت کون تخلیق کرتا ہے، حکومت یا شہری

نیو یارک ٹائمز میں 2 اگست کو ڈیوڈ بروکس کا مضمون ایک خط سے شروع ہوتا ہے: ’پچھلے پانچ برس کے عرصے میں، میں نے ایک کامیاب کاروبار کھڑا کیا ہے ۔ میں نے بہت محنت کی ہے، اور مجھے اپنی کامیابی پر فخر ہے ۔ مگر صدر اوباما مجھے بتا رہے ہیں کہ سماجی اور سیاسی قوتوں نے اس کاروبار کو کھڑا ہونے میں مدد دی ۔ مِٹ رومنی اسرائیل گئے اورفرمایا کہ یہ ثقافتی قوتیں ہیں، جو اقوام کی دولت میں کمی بیشی کی توجیہہ کرتی ہیں ۔ میرے پلے کچھ نہیں پڑرہا ۔ میری کامیابی، کس حد

Read More »

درمیانی راستے کا قانون

بے شمار مقدمات عدالتوں میں لائے جاتے ہیں ۔ وقت لگتا ہے، تاخیر ہوتی ہے، آخرِ کار فیصلہ ہو ہی جاتا ہے ۔ لیکن پاکستان عجیب و غریب ملک ہے؛ یہاں کسی مقدمے کا فیصلہ ہو جائے تو ایک اور مقدمہ شروع ہو جاتا ہے ۔ میرا اشارہ این – آر – او کے مقدمے کی طرف بھی ہے، پر اس کی طرف میں بعد میں آؤں گا ۔ ابھی تو ذرا چھوٹے چھوٹے ادنیٰ حقیر ہم جیسے شہریوں کے بے ضرر کیسوں اور پھر چھوٹی موٹی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی بات ہو رہی ہے ۔ اس میں

Read More »

کراچی کے سوداگر

ایک پاگل دوسر ے پاگل سے کہتا ہے: ”میں سوچ رہا ہوں، لاہور خرید لوں ۔“ دوسرا پاگل جواب دیتا ہے: ”میں بیچوں گا تو تم خریدو گے ۔“ لاہور بِکا یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں، لیکن کراچی بِک گیا ہے ۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ۔ کس نے بیچا، کس نے خریدا ۔ سب کو پتہ ہے ۔ سیاسی بازار میں کون کون سے خریدار کس کس مارکیٹ میں موجود ہیں، اور فروخت کرنے والے، یا فروخت کا اختیار رکھنے والے کہاں کہاں پائے جاتے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ رئیل

Read More »

حکومتیں آگ میں کب جلیں گی؟

اگست 2010 میں، میں نے انگریزی میں ایک مضمون لکھا تھا: ”پاکستان – ایک جرائم پیشہ ریاست ۔“ میرے دوستوں اور جاننے والوں نے اس عنوان پرا عتراض کیا، لیکن میں مصر رہا ۔ میری دلیل یہ تھی کہ اگر آپ کے گھر چوری ہو جائے، ڈاکہ پڑ جائے، سرِ راہ آپ کو لوٹ لیا جائے، آپ کے کسی عزیز کو قتل کردیا جائے، اور ریاست کہیں نظر نہ آئے، بلکہ پتہ یہ چلے کہ براہِ راست نہیں توبالراست ان تمام جرائم میں خود ریاست ملوث ہے تو کیا آپ ایسی ریاست کو جرائم پیشہ ریاست نہیں کہیں گے! اس

Read More »

آرمی چیف کا فلسفیانہ اقدام

حکومتی عہدیداروں کی تقاریر اور بیانات پڑھنا کوئی اچھا تجربہ نہیں ہوتا ۔ بے معنی تکرار اور جھوٹے وعدوں اور دلاسوں کے ساتھ ساتھ ایک نپی تلی بنی بنائی گھڑی گھڑائی زبان کے علاوہ ان میں کوئی مغز کم ہی دستیاب ہوتا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے آرمی چیف جینرل اشفاق پرویز کیانی کی یومِ آزادی کی تقریر پر توجہ نہ دی ۔ تاہم، جب اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اس کا نوٹس لیا گیا تو مجھے بھی تجسس ہوا ۔ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر نظرڈالی ۔ یہ تقریر وہاں اردو اور

Read More »

تخیّل کی موت

یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں انسانی تہذیب کی اعلیٰ و ارفع تحصیلات اور اقدار اپنی موت سے ہمکنار ہو چکی ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے نرم و نازک پھول پودے صحرا کی شدید گرم آب و ہوا میں جھلس کر مر جاتے ہیں ۔ انھیں میں سے ایک چیز تخیّل ہے ۔ اور اگر واقعی ایسا ہے، جیسا کہ محسوس ہوتا ہے کہ تخیّل کی موت ہو گئی ہے تو پھر آنکھیں کھول کر اٹھ بیٹھنے کی ضرورت ہے ۔ درجِ ذیل تحریر، تخیّل کی موت کا نوحہ تو نہیں، ہاں اس کی تصیل ضرور ہے کہ یہ موت کیسے اور کیوں واقع

Read More »

برج نارائن چکبست کا ایک شعر

برج نارائن چکبست (1926-1882) کا ایک شعر زبان زدِ عام رہا ہے: زندگی کیا ہے عنا صر میں ظہورِ ترتیب موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا اسے برِ صغیر میں ابھرنے والے ” ترقی پسند عہد“ کا نمائندہ شعر بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس شعر کے عقب میں جو تصورات اور اقدار کارفرما ہیں، ان کا اظہار شبلی نعمانی (1914-1857) نے یوں کیا ہے: ”مادئیین کا خیال ہے کہ روح کوئی جداگانہ چیز نہیں بلکہ جس طرح چند دواؤں کی ترکیب دینے سے ایک مزاج خاص پیدا ہو جاتا ہے یا تاروں کی خاص ترکیب سے خاص

Read More »

پاکستانی سیاست کا کیچڑ

پاکستان کے ستر سے زیادہ ٹی وی چینلز اور لاتعداد اخبارات اور جرائد، جس فکر و دانش کے نمائندہ ہیں، وہ مجموعی طور پر بھیڑ چال پر مبنی ہے ۔ ہاں، کبھی کبھی یہاں وہاں کچھ معقولیت کا مظاہرہ دیکھنے کو مل جاتا ہے ۔ کچھ ہفتے قبل جب مسلم لیگ (ن) کے خواجہ محمد آصف نے ایک پریس کانفرینس میں تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان پر کچھ الزامات عائد کیے تو تحریکِ انصاف کی طرف سے جوابی الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی ۔ کچھ دن یہ طرحی مشاعرہ خوب چلا ۔ میڈیا ئی علما کو موقع میسر آگیا،

Read More »

مسلم لیگ (ن ) کا طرزِ حکمرانی

آئین وقانون اور ان کی پاسداری، افراد کے ذہنوں اور طرزِ عمل میں کیوں جاگزیں نہیں ہوتی، اس کی پاکستان سے بہتر مثال کہاں مل سکتی ہے ۔ بلکہ یہ ایک ایسا ملک ہے، جہاں عام فرد سے لے کر دانشور، میڈیا اوراشرافیہ تک، اور پھرحکمران طبقات تک، عملاً آئین اور قانون کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ۔ کہنے کو یہاں آئین بھی ہے، جمہوریت بھی ہے، پارلیمان بھی ہے، اور دوسرے آئینی ادارے بھی موجود ہیں ۔ اور صوبائی اسیمبلیاں بھی وجود رکھتی ہیں ۔ تاہم، یہ سب مل کر بھی پورے ملک میں آئین اور قانون کی

Read More »

زوال کے نشان

اگر کوئی مورخ زوال اور اس کی حرکیات کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو پاکستانی سوسائیٹی سے بہتر نفسِ مضمون اسے شاید ہی کہیں مل سکتا ہو ۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے کہ جیسے نفسیاتی مطالعے کے لیے پاکستانیوں سے بہتر کیس کہاں پائے جا سکتے ہیں ۔ پاکستان، ہر نباض کے لیے ایک ایسا ماڈیل بن چکا ہے، جس کو زوال کے نشانوں کی تشخیص اور تعلیم کے لیے ایک مکمل نمونے کی حیثیت سے کام میں لایا جا سکتا ہے ۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ صرف موجود ہ پاکستان، بلکہ غالباً پاکستان اپنے

Read More »

تاریخ کی مہم

یہ تحریر ایک گذشتہ پوسٹ، ”ہنداور سندھ تہذیبیں، اور سیاست کے لیے مذہب کا استعمال“ سے جڑی ہوئی ہے ۔ جیسا کہ میرا خیال ہے، اور یقینا ہر کسی نے، جو تیز نظر رکھتا ہو گا، یہ مشاہدہ کیا ہو گا، اور جیسا کہ سیموئیل جانسن نے حُب الوطنی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ایک غنڈے کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے، تو اسی طرح، تاریخ بھی ان دانشوروں، اہل ِ ادب، رہنماؤں، برادریوں، ٹکڑیوں، قوموں، اور ایسے ہی داخل کی طرف مرتکز افراد اور گروہوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے، جو خود کو بالخصوص، ایسے معاشروں، قوموں، اورتہذیبوں

Read More »

سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ و خم کا فلسفیانہ محاکمہ

اس 10 اگست کو آلٹرنیٹ سالوشنز انسٹیٹیوٹ نے میری دوسری اردو کتاب ریلیز کی ۔ زیل میں اردو میڈیا ریلیز نقل کی جا رہی ہے:  میڈیا ریلیز: نئی کتاب: ”سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ وخم کا فلسفیانہ محاکمہ“ شائع ہو گئی کتاب میں پہلی بار پاکستان کی سیاسی پارٹیوں، اور سیاسی مغالطوں کا فلسفیانہ تجزیہ کیا گیا ہے مصنف سیاسی پارٹیوں کو شہریوں کا دشمن قرار دیتاہے، اوران کی تبدیلی پر زور دیتا ہے لاہور، 10اگست 2012: اے، ایس، انسٹیٹیوٹ، لاہور، نے آج ڈاکٹر خلیل احمد کی دوسری اردو کتاب، ”سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ وخم کا

Read More »

کیا تاریخ کو تبدیل کیا جا رہا ہے؟

حامد میر کے کالم معلومات سے بھرے ہوتے ہیں۔ مگر کل 5 ستمبر کا کالم مجھے بہت عجیب لگا۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا تاریخ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے! پہلے وہ جملے دیکھ لیجیے، جن کے سبب تاریخ کو بدلنے کی کوشش کا گمان پیدا ہوتا ہے: ’’مارچ 2009 میں نواز شریف نے ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ شروع کیا تو آصف علی زرداری اس لانگ مارچ کو روکنے کے لیے فوج کو استعمال کر سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی انا کے بت کو توڑ دیا اور آرمی

Read More »

اردو زبان کی امتیازی خصوصیات

اردو، پنجابی اور انگریزی زبانیں میرے خون میں شامل ہیں۔ اردو اور پنجابی تو ایسے ہیں، جیسے یہ خون میں بولتی ہوں۔ جبکہ، انگریزی اس طرح خون کا حصہ نہیں، جیسے اردو اور پنجابی رگوں میں دوڑتی پھرتی ہیں، اور آنکھ سے خون کی طرح ٹپکتی بھی ہیں۔ انگریزی اس طرح ہے، جیسے کسی کو تقویت دینے کے لیے خون لگایا جاتا ہے۔ یہ خون تولگ گیا، مگر جب انگریزی پڑھی تو اس نے دل موہ لیا۔ کیا انداز ہے اس زبان کا۔ اور جو کچھ اس زبان میں لکھا گیا اور جو کچھ اس زبان میں پڑھنے کو دستیاب

Read More »

پاکستانی عدلیہ کب معافی مانگے گی!

غنیمت ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے بحالی (بحالیوں) کے بعد پاکستانی اعلیٰ عدلیہ نے اپنے دامن سے کچھ داغ دھو دیے ہیں۔ مگر پاکستان کے شہریوں سے ابھی تک اپنے ’’کردہ گناہوں‘‘ کی معافی نہیں مانگی ہے! چلی کی عدلیہ نے معافی مانگ لی ہے۔ خبر دیکھیے: [روزنامہ جنگ، 6 ستمبر، 2013]  

Read More »

صارفوں کا خون چوسو اور اشتہار دو!

یہ اشتہار دیکھیے، جو لاہور ایلیکٹرک سپلائی کمپنی کی طرف سے دیا گیا ہے۔ کیا اس پر اٹھنے والا خرچ لیسکو نے اپنے عملے کی تنخواہوں میں سے ادا کیا ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صارفین کا خون چوس اشتہار دینا، پرلے درجے کی بد عنوانی ہے! اشتہار ملاحظہ کیجیے: [روزنامہ جنگ، 6 ستمبر، 2013]

Read More »

سویز مکتوب کوئی ایشو نہیں!

جب سے پیپلز پارٹی کا موجودہ دورِ حکومت شروع ہوا ہے، یہ ایک آسیب میں گرفتار ہے ۔ پہلے یہ آسیب معزول عدلیہ کی بحالی سے متعلق تھا، جب سے عدلیہ کی بحالی عمل میں آئی ہے، تب سے یہ آسیب ان کی عدم قبولیت کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جب سے اس بحال عدلیہ نے  این آر او کالعدم قرار دیا ہے، تب سے یہ آسیب مقابل کچھ زیادہ ہی ’پر تشدد‘ ہو گیا ہے ۔ اور پھر جب سے این آر او کے حکم پر عمل درآمد کی کاروائی شروع ہوئی

Read More »

Civil Pakistan – a blog for Urdu posts

Be informed that I have decided to separate the Urdu postings from English ones and put them together into another blog.  For the Urdu posts, I am setting up, CivilPakistan: Urdu Blog. As the setting up of the Urdu Blog finishes, all the Urdu postings will be shifted there.  This will let the Blog: NotesFromPakistan.combe available wholly for English posts. Khalil

Read More »

پاکستان – تاریخ چلی الٹے پاؤں

فیروز اللغات (اردو) میں ’شہر آشوب‘ سے مراد ایسی نظم ہے، جس میں کسی شہر کی پریشانی و بربادی کا ذکر ہو ۔ فرہنگِ آصفیہ کے مطابق (۱) وہ مدح یا زم جو شعرا کسی شہر کی نسبت لکھیں؛ کسی شہر کے اجڑنے یا برباد ہونے کا نظمیہ ذکریا ماتم؛ – – – اور اگرشہر سے ملک اور دنیا مراد لی جائے، جیسا کہ معمول بھی ہے، تو ہر زبان کی بیشتر شاعری کو شہر آشوب میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ جب سے وجود میں آیا ہے، سراپا شہر آشوب

Read More »

پہلی بات

ایک تو یہ کہ حکمران اور محکوم مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں اور ان کے شہری مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران خواص اور عام شہری مختلف ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ افراد فطرتاً اچھے ہوتے ہیں یا بُرے، اس بات کا سیاسی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔ یا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بات کا سیاسی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ گو کہ یہ تعلق درسیاتی طور پر دوسرے علوم کے لیے اہمیت ضرور رکھتا ہے۔ پھر یہ کہ ترغیبات بالعموم افراد کو تبدیل کرتی ہیں، یا

Read More »

Riyasati Ashrafiya (State Aristocracy) and the chronic debt dependence

Chronic ‘debt dependence’ By Huzaima Bukhari & Dr Ikramul Haq All is set for the executive board of the International Monetary Fund (MF) to consider Pakistan’s request for a fresh bailout package on September 4, 2013 after Islamabad has purportedly “fulfilled all prior requirements” — the IMF has already circulated amongst members the Letter of Intent (LoI) it received from Islamabad. Reportedly, though the IMF has agreed to provide $6.6 billion under the Extended Fund Facility (EFF), Islamabad is insisting on $7.3 billion confirming its insatiable ‘debt addiction’. Finance Minister Ishaq Dar, in a news conference on August 26, 2013,

Read More »

The myth of economic imperialism: a brief take

[Recently, I was asked to express my views on the notion of economic imperialism and answer to a few questions. It was suggested that “the notion that Pakistan controls the reigns to the economic resources of the country is incorrect – she doesn’t. The G-7 does. They are the ones who make all the economic decisions for us, for our country, through their institutions like IMF, World Bank, and WTO through the policies of SAP, TRIPS, and TRIMS. The idea is to expropriate our land, our labor, our raw materials, and our markets for their own profits. This is what

Read More »