اس خبر کا کیا مطلب ہے؟
آج کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ کیجیے۔ اور سوچیے یہ خبر کیا کہتی ہے۔ حیران ہوئیے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور پاکستان کدھر جا رہا ہے! [روزنامہ جنگ لاہور، 22 اگست، 2013]
آج کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ کیجیے۔ اور سوچیے یہ خبر کیا کہتی ہے۔ حیران ہوئیے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور پاکستان کدھر جا رہا ہے! [روزنامہ جنگ لاہور، 22 اگست، 2013]
پاکستان میں فوج، سیاست، صحافت، بیوروکریسی، وغیرہ، سے وابستہ خواص آئین، قانون اور اخلاقیات سے ماورا ہوتے ہیں۔ انھیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ بلکہ الٹا انھیں خوش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ یہ دو خبریں دیکھیے، اور صحافیوں کے زورِ بازو کا اندازہ کیجیے: [روزنامہ جنگ، 19 اگست، 2013] [روزنامہ جنگ، 20 اگست، 2013] جہاں تک نجی سکولوں کا تعلق ہے تو ان کا یہ فعل ان تک محدود ہے۔ وہ ایسا کرنے میں آزاد ہیں۔ ہاں، جو بچے ان سکولوں میں پڑھتے ہوں گے ان کے والدین اس پر معترض ہو سکتے ہیں۔ گو
گذشتہ پینتیس چھتیس سالوں سے ہر ”14“ اگست کو آزادی کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسے سالانہ جشنِ آزادی کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ 14 اگست، آزادی، اور جشنِ آزادی کا مفہوم کیا ہے، عام لوگ اور بالخصوص نئی نسل کی اکثریت اس سے بالکل بے بہرہ ہے۔ ان پڑھ تو چلو پروپیگینڈے کا شکار ہیں، لیکن پڑھے لکھے بھی غیر تاریخ کے طوطے بنے ہوئے ہیں۔ آزادی کا تصور ان سب کے لیے ایک مجرد اور رومانوی تصور کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بس یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے
ایک تاثر عام ہے کہ جو بیٹا زیادہ کماتا ہے، ماں اس کا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ مگر کراچی جتنا کماتا ہے، پاکستانی ریاست نے اسے اتنا ہی بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے! اسی طرح، کراچی ایک اور تاثر کو بھی جھٹلاتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے غربت اور بے مائیگی جرم کو جنم دیتی ہے۔ دیکھا جائے تو کراچی میں دولت کی تخلیق نے جرم کو بہار بخشی ہے۔ اس معاملے پر تھوڑا رکتے ہیں۔ پچھلے سال ایک خبر نظر سے گذری تھی۔ ’کراچی میں بہت سے مزدوروں نے جامعۂ بنوریہ میں فتوے کے لیے درخواست دے رکھی
عرفان صدیقی ان کالم نگاروں میں سے ہیں، میری کوشش ہوتی ہے جن کے کالم میں باقاعدگی سے پڑھوں۔ ابھی کچھ دیر پہلے آج (6 اگست) کے ’’جنگ‘‘ میں ان کا تازہ کالم پڑھا۔ اس میں انھوں نے ’’جنگ‘‘ میں ہی چھپنے والے کالم نگار سلیم صافی کے ایک کالم کا جواب لکھا ہے، یا اس کا حوالہ دیا ہے اور جواب نہیں لکھا۔ ان کے اس کالم سے پتہ چلا کہ انھوں نے یکم اگست کو جو کالم لکھا تھا، اس میں سلیم صافی کی طرف اشارہ موجود تھا۔ جب میں نے یہ کالم پڑھا تھا تو میں نے یہی
صرف سیاست نہیں، ریاست اور حکمرانی کے معاملات بھی پیسے کا کھیل بن چکے ہیں۔ اس ضمن میں یہ دلچسپ اور ستم ظریفانہ خبر ملاحظہ کیجیے: [روزنامہ جنگ لاہور، 2 اگست، 2013]
اکتوبر 1999 کا پاکستان یاد کیجیے۔ یہاں 12 اکتوبر کو وہی کچھ ہوا، جو مصر میں 4 جولائی کو ہوا۔ مصر کی فوجی اشرافیہ نے ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ پاکستان میں اس وقت جینرل مشرف کے فوجی انقلاب کو یہاں کے لبرل اور روشن خیال طبقات، ترقی پسندوں اور مختلف دھڑوں کے اشتراکیوں نے خوش آمدید کہا تھا۔ انھوں نے اس انقلاب کے داعی جینرل مشرف کے ظاہری لبرل اور اعتدال پسندانہ طرزِ فکراور طرزِ حیات میں اپنی امیدوں کو سمو دیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے کوئی لاعلاج مریض صحت یاب ہونے کے لیے
کئی سال پہلے لاہور ہائی کورٹ میں ایک سیاسی رہنما کے خلاف یہ مقدمہ پیش ہوا تھا کہ انھوں نے مشرقی پاکستان کی علاحد گی کا ذمے دار فوج کو ٹھہرایا ہے، اور یوں آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ بس جو بے چارہ چھری کے نیچے آ جائے۔ انھوں نے اپنے الفاظ واپس لیے، معافی مانگی، تب جا کر جان بخشی ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں کثیر تعداد میں لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ سیاست دان تو بالخصوص یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا، اور اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ میں
ریاست اور حکومت کا عفریت اس وقت سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے، جب اس کے فرمان، ارادے، مفاد، وجود اور بقا پر زد پڑتی ہے! آج کل یہ عفریت ترکی میں جھلّایا، بھِنّایا، اپنے ہی شہریوں پر ستم ڈھا رہا ہے۔ ابھی کل تک ترکی کا کتنا چرچا تھا، دنیا بھر میں۔ پاکستان میں بھی ترکی کی موجودہ حکومت کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے تھے۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہ ترکی کے موجودہ وزیرِ اعظم، رجب طیب اردگان نے ترکی میں سول اور سیاسی معاملات میں فوج کے عمل دخل پر روک لگائی۔ بلکہ دو
نوٹ: اس سلسلے کے پہلے تین کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت، پاکستانی اشرافیہ کا مائنڈسیٹ، پاکستانی اشرافیہ کا طرزِ فکر اگلا معاملہ، ”افسوس، بچو ہم نے اسے غلط سمجھا“ کی مصنفہ، نفیسہ رضوی جس پر توجہ دیتی ہیں، بہت ناز ک ہے، اور یہ وہی مقام ہے، جہاں اشرافیہ کا اندازِ فکر ایک مرتبہ پھر بے نقاب ہو تا ہے۔ یہ معاملہ خود راستی کا ایشو ہے۔ یعنی خود، اور صرف خود کو سچا، راست باز، اورنیک سمجھنا۔ میں خود اس معاملے پر پہلے بھی لکھتا رہا ہوں۔ بلکہ گذشتہ کئی برسوں سے میرا یہ موقف رہا ہے کہ تحریکِ انصاف
اس سلسلے کے پہلے دو کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت، پاکستانی اشرافیہ کا مائنڈ سیٹ سابقہ کالم میں یہ بات ہو رہی تھی کہ جو لوگ کسی مصیبت کی آگ میں زیادہ جلتے ہیں، ان کا سیاسی شعور زیادہ پختہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ، جس آگ میں جل رہے ہیں، اور بالخصوص کراچی کے لوگوں کو جس آگ میں جلایا جا رہا ہے، کیا مصنفہ اس سے واقف نہیں! اور یہ بھی کہ کیا پاکستان کے لوگ صرف دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ کیا پاکستان میں
نوٹ: اس سلسلے کا پہلا کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت گذشتہ کالم ”پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت“ میں پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت سے متعلق کامران شفیع کے نکات پر بات ہو رہی تھی۔ وہ مزید لکھتے ہیں:مصنفہ کہتی ہیں: ’اگر پوری قوم اسی مصیبت سے گزری ہوتی، جس سے خیبر پختون خوا کے عوام گزرے ہیں تو نتائج کی سمت کچھ اور ہی ہوتی۔ پارلیمان کے اندر نئے تازہ چہروں کی ایک منڈلی قطاروں میں بیٹھی ہوتی، اور پرانے، فرسودہ، ہمیشہ موجود رہنے والے چہرے حزبِ اختلاف میں چھُپے بیٹھے ہوتے۔‘ یہ کیسی خواہش ہے، باقی کے اس بے چارے
نوٹ: انتخابات کے بعد 23 مئی کو ’’دا ایکسپریس ٹریبیون‘‘ میں نفیسہ رضوی کا ایک مضمون، ’’افسوس بچو، ہم نے اسے غلط سمجھا‘‘ چھپا۔ یہ بہت اکسانے والا مضمون تھا۔ میں نے سوچا اس کا جواب لکھنا چاہیے۔ پر میرا جواب کسی بھی اخبار میں چھپے گا کیسے۔ میرا تو کوئی کنیکشن نہیں، کون چھاپے گا میرے جواب کو۔ سو میں ڈھیلا پڑ گیا۔ پر کوئی ہفتے بعد ہی 31 مئی کو اسی اخبار میں کامران شفیع کا جواب شائع ہوا۔ خاصا مناسب جواب تھا۔ یہ دونوں مضمون ضرور ملاحظہ کیجیے: Sorry kids, we got it wrong, by Nafisa Rizvi So, what exactly didn’t
مراد یہ کہ اگر بجلی کی پیدائش، ترسیل (ٹرانسمِشن) اور تقسیم ایک نجی کاروبار ہوتی تو یہ کاروبار کب کا ٹھپ ہو چکا ہوتا۔ چونکہ بجلی کی پیدائش، ترسیل اور تقسیم پر بڑی حد تک، یا فیصلہ کن حد تک پاکستان کی ریاست کی اجارہ داری ہے، لہٰذا، یہ کاروبار دیوالیہ ہونے کا نام نہیں لیتا۔ گو کہ پاکستان کے عام شہری جل کر راکھ ہو جائیں، پاکستان کے باقی تمام کاروبار تباہ و برباد ہو جائیں، کیونکہ یہ ریاست کا کاروبار ہے، یہ ہمیشہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ ہر کاروبار کی بنیاد منافعے پر ہوتی ہے۔ یعنی ہر
کچھ باتیں اس وقت تک قابلِ فہم نہیں ہوتیں، جب تک انھیں ان کے درست سیاق و سباق میں نہ رکھا جائے؛ وگرنہ ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیے، وہ سمجھ کر نہیں دیتیں۔ دو بڑی مثالوں میں سے ایک کا تعلق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی دو مرتبہ معزولی اور دونوں مرتبہ بحالی سے ہے۔ پہلی مرتبہ انھیں تنہا معزول کیا گیا، اور دوسری مرتبہ ان کے ہمراہ اعلیٰ عدالتوں کے ان تمام ججوں کو بھی، جنھوں نے نیا جرنیلی حلف لینے سے انکار کیا۔ دونوں معزولیوں کے بعد ایسی مایوس کن صورتِ حال تھی کہ امید کو امید کا
انتخابات کی مہم زور و شور سے جاری تھی۔ باقی پارٹیوں کی طرح، تحریکِ انصاف کے وڈیو اشتہارات بھی ٹی- وی چینلز کو رونق بخش رہے تھے۔ ان میں سے ایک وڈیو اشتہار میں دکھایا گیا تھا کہ ایک نوجوان بلّا پکڑے مرسیڈیز جیسی قیمتی کاروں کے ایک قافلے کو زبردستی روک رہا ہے، اور پس منظر میں ”ہم دیکھیں گے“ نظم گائی جا رہی ہے۔ اس وڈیو اشتہار کو دیکھ کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل کے انچارج، زبیر عمر نے، جنھوں نے پارٹی کے مینی فیسٹو کے معاشی پہلو کی تعیین میں بھی حصہ لیا، پاکستان
1973 کے اصل آئین کا کورا متن پڑھیے! آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اس میں اور بہت سی چیزیں ہوں گی، جن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ جو سلوک جینرل ضیا الحق (اور ان کے ساتھ ملوث سیاست دانوں) نے کیا، وہ سلوک کبھی کسی مصنف کی کسی عام سی کتاب کے ساتھ بھی نہ ہو۔ انھوں نے اپنی پارسا ئی کے لبادے اور واعظانہ دکھاوے کے زعم میں وہ کام کیا، جس نے 1973 کے آئین کا حلیہ ہی بدل ڈالا، بلکہ بگاڑ ڈالا۔ اس حلیے کے اندر آئین نام کی جو
میرا ووٹ پاکستان میں آئین پسندی کے استحکام کے لیے ہے۔ یہ پاکستان کے آئینی اور سیاسی ارتقا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایک شہری دوست ریاست، شہری دوست حکومت اور شہری دوست سیاست کی ترویج کے لیے ہے۔ یہ ملک میں آئین کی حکمرانی اورقانون کی بالادستی کے قیام کے لیے ہے۔ یہ ایک آزاد، اور سرگرم عدلیہ کی تقویت کے لیے ہے۔ یہ پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حقوق کی بلا امتیاز دستیابی کے لیے ہے۔ یہ ایک ایسے پاکستان کے لیے ہے، جہاں ہر شہری، ریاست اور قانون کی نظر میں برابر حیثیت کا حامل ہو۔
انتخابات کے نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے، اور کیا نہیں ہو سکتا، یہ سوال، انتخابات سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم ایک اور سوال ہے۔ پاکستان میں ہونے والے انتخابات اسقدر بانجھ کیوں ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات نتیجہ خیز کیوں نہیں ہوتے۔ جیسا کہ انگریزی میں کہا جاتا ہے، چیزیں جتنا تبدیل ہوتی ہیں، اتنا ہی پہلے جیسی ہوتی جاتی ہیں۔ اسی طرح، پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں جتنی تبدیلی آتی ہے، حالات اتنا ہی پہلے جیسے ہوتے جاتے ہیں۔ یعنی حقیقتاً کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ چیزیں پہلے جیسی ہی رہتی ہیں۔ بلکہ پہلے
گذشتہ کالم، ”انتخابات یا سیاسی ہانکا“ جیسے نامکمل رہ گیا تھا۔ خود مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا، وہ اس کالم میں پوری طرح کہا نہیں جا سکا۔ جو مفہوم میرے ذہن میں تڑپ رہا ہے، وہ اپنی پوری شدت کے ساتھ اس کالم میں ادا نہیں ہو سکا۔ انتخابات کو سیاسی ہانکا قرار دینے پر بھی ایک تشنگی اور بے چینی، دل کے ساتھ لگی رہی۔ اصل میں کچھ سمجھ بھی نہیں آ رہا کہ کیا کہنا چاہتا ہوں۔ بالکل ایسی کیفیت ہے، جیسے بعض اوقات جسم پر کہیں خارش محسوس ہوتی
سیاست دانوں سمیت ایلیکشن کمیشن کے سربراہ سب کے سب یہ کہتے تھک نہیں رہے کہ انتخابات نہ ہوئے تو پاکستان کی بقا اور مستقبل کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ معلوم نہیں وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، اور حقیقتاً کس کی بقا اور کس کے مستقبل کی بات کر رہے ہیں۔ فرض کریں اگر 2008 میں انتخابات نہ ہوتے تو کیا پاکستان کی بقا کو خطرہ لاحق ہو جاتا۔ میں یہ بالکل نہیں کہنا چاہ رہا کہ انتخابات نہ ہوں، یا ملتوی کر دیے جائیں۔ تمام دہشت گردی اورایک دو جماعتوں کی التوا کی کوشش کے باوجود انتخابات وقت
جب اکتوبر 1958 میں میجر جینرل سکندا مرزا نے مارشل لا نافذ کیا تو 1956 کا آئین منسوخ کر دیا۔ جیسے کو تیسا: جینرل ایوب نے میجر جینرل سکندرمرزا کو معزول کر کے دیس نکالا دے دیا۔ جینرل ایوب نے مرکزی اورصوبائی کابینہ برطرف اور قومی اور صوبائی مقننہ تحلیل کر دیں۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی۔ یہ مارشل لا، جون 1962 تک نافذ رہا۔ صدر ایوب کا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ لہٰذا، صدارتی طرز کا آئین تیار کیا گیا (ذوالفقار علی بھٹو بھی صدارتی طرز کا
جیسا کہ گذشتہ کالم، ”1935 کا ایکٹ اور نااہلیت کی دفعات“ میں ذکر ہوا کہ آئین اور قانون، اخلاق اور جُرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ علم اور جہالت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ علم مذہبی ہو یا غیر مذہبی (اسی بنیاد پر ٹیکنوکریٹس کی حکومت کو مستر د کیا جاتا ہے!)۔ یہی وجہ ہے کہ قانون میں یہ نہیں ہوتا کہ عالم اور پڑھے لکھے کو کم سزا دی جائے، اور ان پڑھ کو زیادہ۔ یا اس کے برعکس۔ یا ایسے ہی تقاضوں کی بِنا پر امتیاز برتا جائے۔ اب جبکہ نااہلیت کی دفعات کے ضمن میں ان
انگریزی کے عظیم شاعر چاؤسر کی ایک سطر ہے: حکم نہ لگاؤ، کہیں تم پر حکم نہ لگ جائے۔ مراد یہ کہ جب کوئی شخص کسی معاملے پر رائے دیتا ہے تو وہ خود اپنے بارے میں بھی رائے دے رہا ہوتا ہے۔ آئین کی دفعات 62 اور 63 کے موجودہ اطلاق پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ اگر ایک طرف ایک حلقے سے جینرل مشرف (ر) کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہو جاتے ہیں تو دوسرے حلقے سے مسترد۔ دوسری طرف، اداکارہ مسرت شاہین اور میرا کے کاغذات کی منظوری ان دفعات اور ان کے اطلاق سے متعلق کئی
فی الحال ماضی کو چھوڑے دیتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جینرل مشرف، چیف آف آرمی سٹاف تھے، اور پاکستان کے صدر بھی۔ آدمی بادشاہ بھی ہو اور سپہ سالارِ اعظم بھی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ پھر جب سیاسی خانوادے، یعنی سیاسی پارٹیاں آپ کے آگے پیچھے پھر رہی ہوں؛ اور کسی میں اتنی جرأ ت نہ ہو کہ آپ کے سامنے حرفِ اختلاف لبوں پر لا سکے۔ جمہوریت کے دعوے دار رہنما آپ کی ہر آواز پر لبیک کہنے کو تیار بیٹھے ہوں۔ کتنے ہی آپ کے ساتھ شیر و شکر ہو چکے ہوں۔
ابھی 8 اپریل (2013) کو پنجاب پبلک لائیبریری کے پرانے ہال میں، جو قبل ازیں، لائیبریری کا ریڈنگ روم ہوا کرتا تھا، ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔ چونکہ میں خود اس ”کعبے“ کا ایک بت ہوں، جو واں کا تو نہیں، پر واں سے دور کی نسبت ضرور رکھتا ہے۔ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں خود وہاں سے نکلا ہوا ہوں، نکالا نہیں گیا۔ اس خود جلاوطنی کی تفصیل پھر کبھی بیان ہو گی۔ فی الحال، اس تقریب کا حال سنانا مقصود ہے۔ سال 2011 میں سانجھ پبلیکیشنز، لاہور، نے ایک کتاب شائع کی: ’’فلسفۂ تاریخ، نوآبادیات اور
پاکستان میں بالخصوص 2007 کے بعد، سول سوسائیٹی کا وجود ثابت ہے۔ اب میڈیا کے ساتھ ساتھ سول سوسائیٹی بھی، ریاست، ریاستی اداروں اور حکومت دونوں پر نظر رکھنے میں آگے آگے ہے۔ سول سوسائیٹی کو سمجھنے کے لیے ایک سادہ سا نقشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ ایک طرف ریاست ہے، جو ایک منظم ادارہ ہے۔ اس ریاست پر مختلف اشرافی طبقات نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ایک طرف سیاسی پارٹیاں ہیں، جو اصلاً ان اشرافی طبقات کی نمائندہ ہیں۔ کہنے کو یہ عام شہریوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں۔ فرض کریں ایسی صورت نہ بھی ہو، پھر
یہ غزلِ مسلسل جب میں کلر سیداں (تحصیل کہوٹہ، ضلع راولپنڈی) میں تھا، تب لکھی تھی۔ اس نے دو دن مجھے اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ یہ 2 اور 3 مارچ (1994) کے دوران مکمل ہوئی۔ آج کل پھر کچھ دنوں سے بار بار تنگ کر رہی ہے۔ ذہن خود بخود، اب اور تب، اس کا مطلع پڑھنے لگتا ہے۔ پھر باقی اشعار گو کہ پورے پورے سامنے نہیں آتے، مگر ان کا آہنگ پس منظر میں گونجنے لگتا ہے۔ اس غزل کو پڑھ کر شاید یہ کہا جائے کہ یہ وحدت الوجود کے کرب کو بیان کرتی ہے۔ لیکن اس مفہوم سے میں
اب تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ یہ انتخابات، سیاست دانوں کے لیے ”یومِ حساب“ ثابت ہو رہے ہیں۔ مراد یہ کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک ہر طرح اور ہر رنگ کے سیاست دانوں، ان کی آل اولاد، اور ان کے حواریوں کے لیے انتخابات کچھ یوں ہوتے تھے، جیسے پنجابی میں کہتے ہیں: موجاں لگیاں نیں۔ یعنی عیش ہی عیش۔ آپ نے ایک اور بات بھی سنی ہو گی: عقل نئیں تے موجاں ای موجاں۔ یعنی عقل نہ ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔ اسے پاکستانی صورتِ حال کے حوالے سے یوں
پولیو کے قطرے پاکستان کے لیے دردِ سر بن گئے ہیں۔ بلکہ خون کے قطرے ثابت ہو رہے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ گذشتہ دنوں میں مولانا عبدالحلیم شرر کے مضامین کا مجموعہ، ”مضامینِ شرر“ جلد ہفتم پڑھ رہا تھا۔ یہ 1893 میں چھپی۔ اس میں شامل ایک مضمون مجھے بہت دلچسپ لگا۔ اس کا عنوان ہے: ”چیچک کا ٹیکا اورلیڈی مانٹیگو“۔ اس کے کچھ حصے مولانا شرر کے لفظوں میں آپ بھی ملاحظہ کیجیے: کتنی بڑی حیرت کی بات ہے کہ چیچک کا ٹیکا، جو آج دنیا میں خدا کی ایک بڑی بھاری برکت ہے، اور جس کے
ابھی 23 مارچ کے دن ایک انگریزی اخبار میں سابق وفاقی وزیر برائے سائینس اور ٹیکنالوجی، اور سابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن عطاالرحمان کا ایک مضمون شائع ہوا۔ بہت ڈرانے والا مضمون ہے۔ اگر اس کے عنوان کا ترجمہ کیا جائے تو کچھ یہ مطلب بنتا ہے: چٹان کے کنارے پر۔ وہ لکھتے ہیں: ’آج پاکستان لُٹا پُٹا کھڑا ہے، اس کرپشن کی وجہ سے، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ برس پاکستان کی تاریخ کے بد ترین سال تھے، جن کے دوران ہمارے حکومتی اہلکاروں اورمختلف اداروں میں ان کے
[نوٹ: یہ تحریر ’’اردو بلاگ ـ سب کا پاکستان‘‘ کے لیے 26 دسمبر 2011 کو لکھی اور پوسٹ کی گئی۔ تحریکِ انصاف کے مظہر کے بارے میں آج بھی میری رائے یہی ہے!] پاکستان کے شہریوں کے ساتھ ایک اور عظیم دھوکہ ہونے جا رہا ہے! پہلا عظیم دھوکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی صورت میں شروع ہوا تھا، اور ابھی تک جاری و ساری ہے۔ اور پاکستان کے شہریوں کی ایک معتدبہ تعداد ابھی تک اس دھوکے سے باہر نکلنے پر راضی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد 1967میں رکھی گئی تھی۔ جو خواب اس وقت پاکستان کے شہریوں کو دکھائے گئے تھے، وہ
پہلی بات تو یہ کہ یہاں سیاست دانوں کی ناکامی کی ”آمد“ سے جینرل مشرف (ریٹائرڈ) کی جلاوطنی سے وطن واپسی مراد ہے۔ اور پھر ان کی جلاوطنی بھی کیسی جلا وطنی تھی کہ اپنے دیس کے شب وروز سے کہیں بہتر زندگی، وہ بدیس میں گزار رہے تھے۔ کوئی بے چارے عام پاکستانیوں سے پوچھے، کتنے ہیں، جو اس طرح کی جلاوطنی کے لیے ترس رہے ہیں۔ سبک دوش وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے، جب وہ سریرآرائے سلنطت تھے، فرمایا تھا کہ جن پاکستانیوں کوان کی حکومت پسند نہیں، وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ کاش ایسا ہو
جلد ہفتم ـ ـ ـ ـ ـ یہ بات قابلِ غور ہے کہ شرر اپنا نام، محمد عبدالحلیم شرر لکھتے تھے ۔ دیکھیے صفحہ: 81 یہ کتاب 29 مارچ کو مکمل ہوئی۔ چونکہ کتاب کے ابتدائی صفحات مفقود ہیں، لہٰذا، اس کی مزید تفصیل دستیاب نہیں۔ اس جلد میں جمع کیے گئے مضامین، وغیرہ، اولاً ’’دلگداز‘‘ میں شائع ہوئے۔ کل صفحات 177 ہیں۔ ہاں، جو ںظمیں، ڈرامے اور مضامین اس میں شامل ہیں، ان کی فہرست درجِ ذیل ہے: شبِ وصل (نظم) شبِ غم (نظم) زمانہ اور اسلام (نظم) بلینک ورس یا نظمِ غیر مقفیٰ (مضمون اور منظوم ڈراما) نظمِ معریٰ (مضمون) نظمِ معریٰ (مضمون)
ایک خبر کے مطاقب نگران وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، نواب غوث بخش باروزئی نے اپنی گاڑی سے کالے شیشے اتار دیے، اور کوئیٹہ کے بڑے پولیس افسر کو ہدایت کی کہ کالے شیشے والی سرکاری و نجی گاڑیوں کے خلاف قانون کے مطابق کاروئی کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون پہلے موجود نہ تھا، اور جس گاڑی کے کالے شیشیے وزیرِ اعلیٰ نے اتارے، وہ غالباً سرکاری گاڑی ہو گی، تو اس پر کالے شیشے کیسے لگے، کس نے لگائے، اور پہلے یہ گاڑی کون استعمال کرتا رہا۔ ]روزنامہ ایکسپریس، 28 مارچ، 2013] [روزنامہ ایکسپریس، 28 مارچ، 2013] گاڑیوں میں کالے شیشے خلافِ قانون
سیاست دان تو بدنام ہیں، اور صحیح بدنا م ہیں۔ وہ صرف نام کے، یا نام کے لیے بدنام نہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے: بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ بلکہ سیاست دانوں نے کام ہی ایسے کیے، اور کیے ہی جا رہے ہیں ، جنھوں نے ان کی شہرت ایسی بنا دی۔ یہاں تک کہ بدنامی ان کے گلے کا طوق بن چکی ہے۔ وہ عہدے، رتبے، حیثیت، مرتبے، اور اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کے ٹیکس کے پیسے کے بھوکے مشہور ہیں۔ وہ جھوٹ بولنے میں طاق ہیں۔ جعل سازی کے گُرو ہیں۔ آئین
تحریکِ انصاف نے پارٹی انتخابات کیا کروائے، جیسے کوئی انہونی ہو گئی۔ پاکستان میں کچھ ایسا ہو گیا، جو کبھی نہ ہوا تھا، اور یوں لگا بس اب پاکستان کے عام شہریوں کا مقدر بدلنے ہی والا ہے۔ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے ہی والی ہیں۔ ان انتخابات کے دوران جو کچھ ہوا، اس سے قطع نظر تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کا رویہ قابلِ دید اور قابلِ غور ہے۔ یہ رویہ اس تکبر سے کسی طرح مختلف نہیں، جس کا اظہار تحریکِ انصاف پہلے سے کرتی آ رہی ہے۔ یہ رویہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے
پاکستان میں خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی موجود ہے، جو چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے تو اس کا کوئی استعمال بھی ہونا چاہیے۔ ابھی 28 فروری کو روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں جماعتِ اسلامی کے امیر کا ایک بیان شائع ہوا، ملاحظہ کیجیے:
ٹویٹر پر آج کی ٹویٹ: ترجمہ: بحوالہ پاکستانی میڈیا پر آصف علی زرداری کی تعریف و تحسین: میڈیا میں چمکتی ہر چیز سونا نہیں ہوتی! https://twitter.com/khalilkf
Today’s tweet: Re Pakistani media’s praise for Asif Ali Zardari: Everything that glitters in Media is not gold! https://twitter.com/khalilkf
What’s happening at this time in Pakistani media has no precedent! It’s desperately trying to transform Dust into Gold using its science of alchemy and its alchemists. As Asif Ali Zardari leaves the Presidency, Pakistani media slides into a frenzy to be all praise for him, forgetting all the names it has been calling him with. Probably all the television (may be radio also, do not listen to any) channels and almost all the English and Urdu newspapers are making a seer out of him. As is said in Urdu and Punjabi: ’’چوروں قطب بننا‘‘ It may be translated into
جیسا کہ پہلے بھی ایک پوسٹ میں یہ ذکرآ چکا ہے کہ حامد میر کے کالم معلومات سے بھرے ہوتے ہیں۔ تاہم، ان معلومات کو کسی فکری لڑی میں پرونا غالباً ان کے بس کی بات نہیں۔ آج کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ان کا جو کالم چھپا ہے، اسے ریاستی اشرافیہ کے گھریلو تعلقات کی معلومات کا خرینہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کالم میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے گھریلوراز، جنھیں عام طور پر ’’چغلیاں‘‘ کہا جاتا ہے، کھولے گئے ہیں۔ملاحظہ کیجیے اور لطف اندوز ہوئیے: [روزنامہ جنگ، 9 ستمبر، 2013]
پاکستان کی فکری فضا مغالطوں سے آلودہ ہے۔ یہاں ہرقسم کے مغالطے وافر دستیاب ہیں۔ مغالطے ایسے تصورات ہوتے ہیں، جو بظاہر درست معلوم ہوتے ہیں، لیکن بغور دیکھنے پر یہ غلط ثابت ہوتے ہیں۔ مغالطوں کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سوچنے، کھنگالنے، چھاننے پھٹکنے، اور تحقیق و تفتیش جیسے کام کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہاں وہاں، فیصلہ کن انداز میں، ہر جگہ انھیں دہرائے جاؤ، اور” ڈنگ ٹپائے“ جاؤ۔ یوں، دوسروں کے منہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ بحث و مباحثے کو دفنانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ مغالطوں کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ
کیا آپ نے کبھی ایسا کوئی منظر دیکھا ہے کہ نغمۂ شادی کے ساتھ ساتھ نغمۂ غم بھی گونج رہا ہو! یا شادی خانہ آبادی کا کوئی ایسا منظر کہ جس میں عروسی بندھن میں بندھنے والوں کے بجائے، مبارک سلامت کسی اور کو دی جا رہی ہو! پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جو کچھ نہیں ہوا، وہ آج ہونے جا رہا ہے۔ ایک منتخب سیاسی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے۔ پہلے یہ مدت پوری کیوں نہیں ہو پاتی تھی، یہ سوال بھی غور طلب ہے؛ اوراتنا ہی اس سوال
پہلے ایک نظم ملاحظہ کیجیے، جو میں نے سال 2010 میں لکھی تھی۔ یہ آج بھی حالات کے مطابق ہے۔ بلکہ گزرے برسوں کے ساتھ ساتھ آنے والے برسوں کے حکومت میلوں کا ہو بہو نقشہ پیش کرتی ہے: میلہ لگا ہوا ہے حکومت کے نام پر میں تیرے کام کرتا ہوں، تو میرے کام کر تجھ کو خودی سے اور طریقے سے کام کیا سب کچھ تو بیچ ڈال، کھرے اپنے دام کر بیٹھا ہے تیرے سر پہ ہما، تو ہے بادشاہ یہ عدلیہ، یہ میڈیا، ان کو غلام کر صبح کو عہد، شام کو پامال کر اسے پیدا
فلسفی جان ڈیوی کا کہنا تھا کہ انسانیت کا نہایت اہم مسئلہ اکٹھے مل کر رہنا ہے۔ یعنی انسانوں کا اجتماع کی صورت میں رہنا۔ اس مسئلے سے کسی بھی صورت فرار ممکن نہیں، اور اس کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنا لازمی ہے۔ جب ایک گھر میں چند افراد مل کر رہتے ہیں تو لاتعداد اختلافات جنم لیتے ہیں، اوریوں نئے سے نئے مسائل بھی۔ چونکہ سب جانتے ہیں کہ اکٹھے مل کر رہنا ہے، لہٰذا، وہ اختلافات کا کوئی حل نکالتے اور مل کر رہتے ہیں۔ یا پھر اگر وسائل کے اعتبار سے اور جذباتی طور پر وہ
انصاف کی فراہمی کے لیے کوئی بھی نظام وضع کر لیا جائے، اس میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہے گی۔ وجہ یہ ہے کہ ”انصاف“ حقیقتاً کبھی ممکن نہیں ہو پاتا۔ اگر کسی انسان کی جان غیر قانونی اندازمیں لی گئی ہے، تو کیا اس کا کوئی بدل ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح، اگر کسی فرد کو کوئی نقصان پہنچایا گیا ہے تو کیا اس کی کوئی تلافی ہو سکتی ہے۔ قطعاً نہیں۔ اس حوالے سے کم سِن بچوں میں موجود انصاف کی تڑپ سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ اور یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے
پاکستان میں ”جرم“، ریاست، سیاست اور حکومت کے ساتھ لازم و ملزوم بن گیا ہے۔ جرائم پیشہ سیاست اور جرائم پیشہ حکومتوں نے پاکستان کو جرائم پیشہ ریاست بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس کی تازہ مثال بلوچستان کے انسپیکٹر جینرل پولیس نے مہیا کی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں کالعدم جہادی تنظیموں کے رہنماؤں سے اپنی ملاقات کے حوالے سے، جو انھوں نے اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ کسی حکم کی تعمیل کے لیے کی ہو گی، ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان روابط کا مقصد جہادی جنگجوؤں کو یہ یقین دلانا ہے کہ پاکستان ان سمیت ہر شہری کا ملک
کیاانصاف ممکن ہے؟ بالخصوص اگر ایک فرد یا افراد کا ایک مختصر گروہ، قتلِ عام کا مرتکب ہو تو پھر انصاف کی نوعیت کیا ہو گی؟ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ انصاف ممکن نہیں۔ مثلاً اگر کسی فرد کی جان لی گئی ہے، یا اسے کوئی نقصان پہنچایا گیا ہے، تو اس کی کوئی تلافی ممکن نہیں۔ تاہم، انسانی تہذیب نے ”قانونی انصاف“ کا تصور ضرور وضع کیا ہے، جسے انصاف کو گرفت کرنے کی بڑی کوشش ضرور کہا جا سکتا ہے۔ اور حقیقتاً یہی قانون پر مبنی انصاف ہے، جو کسی مثالی انصاف کا بدل ہو سکتا ہے۔ پھر
Copyright © 2021 Pak Political Economy. All Rights Reserved