”پاکستا ن میں ریاستی اشرافیہ کا عروج“
کتاب:”پاکستا ن میں ریاستی اشرافیہ کا عروج“ شائع ہو گئی مصنف کے مطابق کتاب ”اشرافیہ کا نہیں، سب کا پاکستان“ کا نعرہ وضع کرتی اور
کتاب:”پاکستا ن میں ریاستی اشرافیہ کا عروج“ شائع ہو گئی مصنف کے مطابق کتاب ”اشرافیہ کا نہیں، سب کا پاکستان“ کا نعرہ وضع کرتی اور
عرفان صدیقی کہنہ مشق کالم نگار ہیں۔ رائے بنانے اور پھر اس کے اظہار میں سنجیدگی کو ہاتھ سے نہیں دیتے۔ تاہم، بعض اوقات اور
Tax reform agenda By Huzaima Bukhari & Dr. Ikramul Haq The dire need in today’s Pakistan is to tap the real tax potential and make the
نئے انتخابات ہو گئے۔ نئی حکومت بن گئی۔ مگر اندھوں کا کاروبار اسی طرح چالو ہے۔ وہ ہر پھر کر ریوڑیاں اپنوں کو ہی بانٹے
خیبر پختونخوا میں انتظامی معاملات میں ہمہ گیر اور ہمہ جہت سیاسی مداخلت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ ایک گذشتہ پوسٹ میں اس کی
یہ پوسٹ گذشتہ پوسٹ: ’’جھوٹ کے پاؤں اور جھوٹ کا دماغ‘‘ سے جُڑی ہوئی ہے۔ جیسا کہ آصف علی زرداری کی شان میں زمین آسمان
So someone had the guts to expose the brazen falsity of those outrageous praises showered on Asif Ali Zardari published in various newspapers on September
This post is in continuation of a previous post: Pakistani media’s alchemy – making a seer out of a crook On September 12, various newspapers
A wealthy family’s arrogant young man kills another young fellow. The killer’s family is able to buy every instrument of the state which otherwise exists
سیاہی خشک ہونے کا محاورہ بھول جائیے۔ شیکسپیئر کو یاد کیجیے: There are more things in heaven and earth, Horatio, !Than are dreamt of in
ابھی ’’شاہی سید والی خبر‘‘ کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایک اور خبر منظرِ عام پر آ گئی۔ پہلے یہ خبر 29 اگست (روزنامہ ’’جنگ‘‘) کو
بحوالہ شاہ زیب قتل کیس ٹیوٹ کا ترجمہ: پاکستان تیزی سے ایک ایسی ریاست میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، جسے قاتلوں کی ریاست کہا
کیسی حیرانی کی بات ہے کہ جھوٹ کے پاؤں تو ہوتے ہی تھے، اب جھوٹ کے ہاتھ بھی نکل آئے ہیں، آنکھیں بھی، صورت شکل
پیپلز پارٹی کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے پہلے دور میں ملک کے انتظامی معاملات میں فاش قسم کی جس مداخلت کی ابتدا
“A senior serving intelligence agency officer, who also led operations in which wanted al Qaeda figures Ahmad Khalfan Ghalani and Naeem Noor Khan alias Abu
See this cartoon by Sabir Nazar carried by The Express Tribune on September 11, 2013. Any guess: what’s the book all the parties are on
Plato knew well democracy without rule of law in Pakistan will be dominated by demagogues, chaos will ensue, to reestablish order, the people will welcome
[پاکستان کے 66 سال پورے ہونے پر ایک غزل] جینا ہے کیا، جی کر دیکھا خود سوچا، اور پھر مر دیکھا اندر کا گنبد ٹوٹا جب کھڑکی،
پاکستان کی ریاست سونے کی کان ہے۔ اس میں سے سونا نکالنے اور لوٹنے کے لیے ریاست کے ساتھ کسی نہ کسی حیثیت میں وابستہ
ایک خبر سے ایک مختصر اقتباس دیکھیے: ’’امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ کراچی میں بد امنی اور پھیلے تشدد کو روکنے کے لیے حکومتی
آج، اگلے روز ہی پاکستان ٹیلی کام اتھاریٹی کی طرف سے اخبارات میں گذشتہ روز شائع ہونے والی خبر کی تردید آ گئی ہے۔ مگر یہ واضح
پاکستان کے اخبارات میں روزانہ لاتعداد ایسی خبریں سامنے آتی ہیں، جنھیں رد و مسترد کرنے، اور جن کی تحقیق و تفتیش کے لیے ہزاروں
موجودہ پاکستان میں کس قسم کا مکالمہ چل رہا ہے، آئیے ایک مثال پر رکتے ہیں: آج 27 اگست کو روزنامہ جنگ کی خصوصی اشاعت میں میر
پہلے درج ذیل خبر دیکھیے۔ یہ 28 اگست کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی ہے۔ میں نے اس کی مزید تفصیلات تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر
دنیا بکھر رہی ہے ٹکڑوں میں مر رہی ہے بیٹھی تھی جو کثافت تہہ سے ابھر رہی ہے برپا ہے اک تلاطم ہر موج ڈر
پاکستان مسلم لیگ حکومت سے باہر ہوئی تو اسے متحد رکھنا ایک مسئلہ بن گیا۔ اقتدار کا کھونٹا اکھڑتے ہی جس کا منہ جدھر اٹھا
آج کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک مختصر سی خبر کیا کہتی ہے۔ بہت کچھ کہتی ہے۔ اسے پاکستان کے ضمن میں وہ
مہم عربی زبان کا لفظ، اور اسمِ مونث ہے۔ اس کے جہانِ معنی کو کھولنے اور مفاہیم و مطالب کو سمجھنے کے لیے مختلف لغات
Re Shahzeb murder case Today’s tweet: Pakistan is fast turning into a state of the murderers, for the murderers, by the murderers! Where and how
آج کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ کیجیے۔ اور سوچیے یہ خبر کیا کہتی ہے۔ حیران ہوئیے پاکستان میں کیا ہو
پاکستان میں فوج، سیاست، صحافت، بیوروکریسی، وغیرہ، سے وابستہ خواص آئین، قانون اور اخلاقیات سے ماورا ہوتے ہیں۔ انھیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ بلکہ
گذشتہ پینتیس چھتیس سالوں سے ہر ”14“ اگست کو آزادی کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسے سالانہ جشنِ
ایک تاثر عام ہے کہ جو بیٹا زیادہ کماتا ہے، ماں اس کا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ مگر کراچی جتنا کماتا ہے، پاکستانی ریاست نے
عرفان صدیقی ان کالم نگاروں میں سے ہیں، میری کوشش ہوتی ہے جن کے کالم میں باقاعدگی سے پڑھوں۔ ابھی کچھ دیر پہلے آج (6 اگست)
صرف سیاست نہیں، ریاست اور حکمرانی کے معاملات بھی پیسے کا کھیل بن چکے ہیں۔ اس ضمن میں یہ دلچسپ اور ستم ظریفانہ خبر ملاحظہ
اکتوبر 1999 کا پاکستان یاد کیجیے۔ یہاں 12 اکتوبر کو وہی کچھ ہوا، جو مصر میں 4 جولائی کو ہوا۔ مصر کی فوجی اشرافیہ نے
کئی سال پہلے لاہور ہائی کورٹ میں ایک سیاسی رہنما کے خلاف یہ مقدمہ پیش ہوا تھا کہ انھوں نے مشرقی پاکستان کی علاحد گی
ریاست اور حکومت کا عفریت اس وقت سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے، جب اس کے فرمان، ارادے، مفاد، وجود اور بقا پر زد پڑتی
نوٹ: اس سلسلے کے پہلے تین کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت، پاکستانی اشرافیہ کا مائنڈسیٹ، پاکستانی اشرافیہ کا طرزِ فکر اگلا معاملہ، ”افسوس، بچو ہم نے
اس سلسلے کے پہلے دو کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت، پاکستانی اشرافیہ کا مائنڈ سیٹ سابقہ کالم میں یہ بات ہو رہی تھی کہ جو
نوٹ: اس سلسلے کا پہلا کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت گذشتہ کالم ”پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت“ میں پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت سے متعلق کامران
نوٹ: انتخابات کے بعد 23 مئی کو ’’دا ایکسپریس ٹریبیون‘‘ میں نفیسہ رضوی کا ایک مضمون، ’’افسوس بچو، ہم نے اسے غلط سمجھا‘‘ چھپا۔ یہ بہت اکسانے
مراد یہ کہ اگر بجلی کی پیدائش، ترسیل (ٹرانسمِشن) اور تقسیم ایک نجی کاروبار ہوتی تو یہ کاروبار کب کا ٹھپ ہو چکا ہوتا۔ چونکہ
کچھ باتیں اس وقت تک قابلِ فہم نہیں ہوتیں، جب تک انھیں ان کے درست سیاق و سباق میں نہ رکھا جائے؛ وگرنہ ٹامک ٹوئیاں
انتخابات کی مہم زور و شور سے جاری تھی۔ باقی پارٹیوں کی طرح، تحریکِ انصاف کے وڈیو اشتہارات بھی ٹی- وی چینلز کو رونق بخش
1973 کے اصل آئین کا کورا متن پڑھیے! آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اس میں اور بہت سی چیزیں ہوں گی، جن سے
میرا ووٹ پاکستان میں آئین پسندی کے استحکام کے لیے ہے۔ یہ پاکستان کے آئینی اور سیاسی ارتقا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایک شہری
انتخابات کے نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے، اور کیا نہیں ہو سکتا، یہ سوال، انتخابات سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس سے بھی زیادہ
گذشتہ کالم، ”انتخابات یا سیاسی ہانکا“ جیسے نامکمل رہ گیا تھا۔ خود مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا،
Copyright © 2021 Pak Political Economy. All Rights Reserved