کیا بجلی کا بحران کبھی ختم ہو سکے گا!
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے پیچھے پاکستانی سیاست اور ریاست کے سنگین جرائم چھپے ہوئے ہیں۔ جب سے واپڈا کا قیام عمل میں آیا، اس
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے پیچھے پاکستانی سیاست اور ریاست کے سنگین جرائم چھپے ہوئے ہیں۔ جب سے واپڈا کا قیام عمل میں آیا، اس
کسی بھی قسم کی قوت، طاقت، اختیار، وغیرہ، سب اتھاریٹی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ قوت اور طاقت پیدائشی اور فطری بھی ہو سکتی
ٹویٹر پر آج کی ٹویٹ: ترجمہ: یومِ نجات ـ آصف زرداری نے جو نقصان پہنچایا، پاکستانی ریاست، سوسائیٹی اور تصورات پر اس کے اثرات برسوں
Today’s Tweet: Good Riddance Day – the devastation caused by Asif Zardari to exert its impact on the Pakistani state, society and ideas for years
نوٹ: یہ ٹکڑا 4 مارچ 2011 کو لکھا گیا اور 21 مارچ 2011 کو ’’اردو بلاگ ـ سب کا پاکستان‘‘ پر پوسٹ ہوا۔ حکومت ِ پاکستان کی بس چلانے کے لیے ڈرائیوران و
اس ضمن میں ایک خبر (ریاستی اشرافیہ کا پاکستان ـ 5) پہلے پوسٹ کی جا چکی ہے۔ اب 17 جنوری کے روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں اول صفحے پر یہ خبر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اگوائی میں پارلیمان کے اندراور پارلیمان سے باہر موجود اکثر سیاسی جماعتیں ہر قسم کے غیر آئینی اقدام اور حکومت
نوٹ: یہ کالم ’’نجی تعلیم کی ریگولیشن کا مسئلہ‘‘ کے سلسلے کا تیسرا کالم ہے۔ گذشتہ دو کالم، ”نجی سکول اور خیبر پختونخوا حکومت“، اور ”نجی سکول اور تعلیم
دروازے پر بیل ہوئی۔ جا کر دیکھا تو شاہد اور ظفر کار لیے کھڑے تھے: ’گوجرانوالے جانا ہے۔‘ ’میں تو ابھی سو کر اٹھا ہوں۔
نوٹ: یہ کالم “نجی تعلیم کی ریگولیشن کا مسئلہ” کے سلسلے کا دوسرا کالم ہے۔ جیسا کہ گذشتہ کالم، ”نجی سکول اور خیبر پختونخوا حکومت“ میں ذکر
پاکستان میں ریاست اور حکومتوں کی ناکامی ہمہ گیر ہے۔ تعلیم کا شعبہ بھی اس ناکامی سے مستثنیٰ نہیں۔ کہنے کو ایک خود رو انداز
عرض معروض یہ مضمون مارچ 1992 میں لکھا گیا تھا۔ اسے بغرضِ اشاعت مختلف جرائد کو بھیجا گیا؛ پر کہیں چھپ نہ سکا۔ ان جرائد
کیا پاکستان میں اردو زبان کے اور بھی آسان ہو جانے کی بات عجیب نہیں لگتی۔ کیا پاکستان میں اردو بولنے، پڑھنے، لکھنے اور چھاپنے
It’s just inhuman, against the very norms of the human world, that anyone be killed for his / her ideas. Everyone has ideas, good or
پاکستان ابتدا ہی سے اس المیے کا شکار ہے کہ یہاں آئین اورقانون کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی، اور ہر کوئی کسی نہ کسی
انسانی دنیا کے فیصلے تصورات کی دنیا میں ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارے تصورات ہوتے ہیں، ویسی ہی ہماری زندگی ہو جاتی ہے۔ مغالطہ بھی تصور
غالب امکان یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی ایسا نہیں کرے گی۔ کیوں؟ چند ممکنہ اسباب ذیل میں درج کیے جاتے ہیں: 1– تیسری دنیا
بہت سی باتیں متعدد وجوہات کی بِنا پر ناقابلِ فہم ہوتی ہیں۔ بہت سی باتیں اس لیے ناقابلِ فہم ہوتی ہیں کہ ان کے پیچھے
پنجاب میں لیپ ٹاپ کا لنگر بنٹنا ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کی ریس میں، سندھ اور خیبر پختون خواہ کی حکومتیں بھی
یہ 1998 کی بات ہے کہ ایک کتاب کی تلاش کے سلسلے میں اردو بازار میں ’’دوست ایسوسی ایٹس‘‘ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ کتابوں کے
اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نظمِ حکومت کے حوالے سے ذمے داری سیاست دانوں پر آتی ہے۔ خود سیاست دان یہی
خیال کریں کہ قدیم انسان زندگی کو کیسے سمجھتا، اور اس کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہو گا۔ زندگی کی قدر و قیمت کا
’پاکستان کے اصل مجرم سیاست دان ہیں۔‘ یہ میں نے کیا لکھ دیا۔ ہر کوئی سیاست دانوں کو ہی قصوروار گردانتا ہے۔ انھیں ہی لعن
میلہ لگا ہوا ہے حکومت کے نام پر میں تیرے کام کرتا ہوں، تو میرے کام کر تجھ کو خودی سے اور طریقے سے کام
جب اشرافی طبقات، ریاست پر قابض ہوجائیں، جیسا کہ پاکستان میں ہوا ہے، تو وہ زندگی کے ہرشعبے پر اپنا غلبہ قائم کر لیتے ہیں۔
سعید اقبال واہلہ میرے بہت عزیز دوست تھے۔ ہماری دوستی پنجاب یونیورسیٹی کے شعبۂ فلسفہ میں ہوئی، جہاں ایم– اے فلسفہ کرتے ہوئے کچھ اور بہت
وہ کہانی یاد کیجیے جو ایک گذشتہ پوسٹ: ’’مملکتِ اشرافیہ پاکستان، مبارک ہو!‘‘ میں بیان ہوئی ہے۔ اس کہانی میں ’’اوگرا‘‘ کے جن سابق سربراہ
یہ مقبول نیوز چینلز کے پرائم ٹائم نیوز بُلیٹِن ہیں۔ ان کا ایک سلاٹ، ’اینٹرٹینمینٹ نیوز‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ نہ بھی ہو تو ان
بعض اوقات یہ بات بالکل حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے کچھ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ وہ ملوث ہیں ان
”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں مجھے اداکاری نہیں آتی۔ اگر مجھے سیاسی اقتدارکی خواہش ہو تو روکنے والا کون ہے۔ فوج میرے ساتھ ہے
نوٹ: یہ کالم 24 نومبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔ تاہم، جیسا کہ اخبارات کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، اس کے آخری دو پیرے تبدیل کر
انسانی دنیا کے فیصلے تصورات کی دنیا میں ہوتے ہیں۔ طاقت اور کمینگی سے کام لے کر کچھ بھی کرلیا جائے، اگر وہ تصورات کی
پاکستان کے ذہنی وفکری منظر کو پسماندگی کی کھلی کتاب کا نام دیا جا سکتا ہے! اس کالم کی تقریب اسی اخبار میں 10 اکتوبر کو
گذشتہ کالم، ”قدیم ریاست اور آئین کی بالادستی کا اصول“ میں یہ بحث کی گئی تھی کہ جدید ریاست کوئی خلا سے نازل نہیں ہوگئی، بلکہ اس
آئین کی بالادستی کا اصول، جدید ریاست کی اساس ہے۔ تاہم، ابھی جب آئینی ریاستیں وجود میں نہیں آئی تھیں، تب بھی (یعنی قدیم ریاستوں
اورنگ زیب برخلاف اپنے تین بھائیوں کے ایسا متین شخص تھا کہ پابندی شرع کے لحاظ سے ملکی جوڑ توڑ کے سوا دوسرا خیال نہ
فاربس کی مرتبہ فہرست کے مطابق بِل گیٹس، امریکہ کے امیر ترین اور دنیا کے دوسرے امیر ترین فرد ہیں۔ وہ 1995 سے لے کر
غیرا خلاقی، غیر قانونی اور غیر آئینی خوراک پر پلنے والی ریاستیں، شکاری ریاستیں ہوتی ہیں۔ یہ ہمیشہ تاک میں ہوتی ہیں کہ کوئی ایسا
گذشتہ سال عید کا دن (یکم ستمبر) تھا، اور ان دنوں کراچی میں امن و امان کے حالات بہت خراب تھے۔ دلبرداشتہ، سابقہ ’’اردو بلاگ
یہ بس اتفاق ہے کہ آج میں اپنی ایک پرانی تحریر تلاش کر رہا تھا، اور درج ذیل تبصرہ سامنے آ گیا۔ یہ میری یادداشت
گذشتہ دوکالموں میں جو ہوش ربا کہانیاں بیان ہوئیں، ان سے آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ دل دہلا دینے والی حیرانی ختم ہونے میں
بے چارے عام لوگ بال کاٹیں تو حقارت سے نائی، حجام کہلائیں۔ خواص بال کاٹیں تو فخر سے ڈیزائینر ہیئر ڈریسر کہلائیں۔ بہت سے کا
وسیم سجاد کے صاحبزادے بیرسٹر حسن سجاد وزیرِ داخلہ رحمان ملک کے ایڈوائزر مقرراسلام آباد (این این آئی) سابق صدرِ مملکت وچیئر مین سینیٹ وسیم
یہ کالم مثالوں کے ساتھ ایک ضرب المثل کی تشریح سمجھ لیجیے۔ مثل ہے: حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ۔ فرہنگِ آصفیہ میں
چینی کے برتن کتنے خوبصورت اور نازک ہوتے ہیں۔ یہ جب ٹوٹتے ہیں، کتنا عجیب چھناکا اور کتنا دکھ ہوتا ہے۔ اگر کسی چائنہ شاپ
میری طبیعت شروع ہی سے موزوں تھی، اس با ت کا مجھے تب پتہ چلا، جب میں نے گورنمینٹ کالج لاہورمیں داخلہ لیا۔ وہاں اقبال
بچوں کا مقدر والدین، اور شہریوں کا مقدر ریاست ہوتی ہے! وضاحت اور تفصیل اس قضیے کی یہ ہے کہ بچے جس طرح کے والدین
جب سے پاکستان بنا ہے تب سے ہی ایک کشمکش مسلسل موجود ہے ۔ یہاں میں یہ کہنے سے گریز کروں گا کہ یہ کشمکش
پاکستان کی ریاست ایک ایسا جوہڑ ہے، جس میں سڑتے پانی کو حکومتوں کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ کہنے کو یہ حکومتیں دوچار
نیو یارک ٹائمز میں 2 اگست کو ڈیوڈ بروکس کا مضمون ایک خط سے شروع ہوتا ہے: ’پچھلے پانچ برس کے عرصے میں، میں نے
Copyright © 2021 Pak Political Economy. All Rights Reserved