آیا پاکستان میں خیالات جنم لے رہے ہیں یا نہیں؟
مجھے جس چیز نے اس سوال پر غور کرنے اور اس کا جواب دینے پر اکسایا، وہ ڈاکٹر ندیم الحق کی یہ رائے ہے کہ
مجھے جس چیز نے اس سوال پر غور کرنے اور اس کا جواب دینے پر اکسایا، وہ ڈاکٹر ندیم الحق کی یہ رائے ہے کہ
سقراط کو سچائی کے ساتھ اور سچائی کو موت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ کیسے؟ اور کیوں؟ غالباً اس پر غور نہیں ہوا۔ یا ہوا
میرے اکثر خواب بھی آزمائش کی طرح ہیں۔ سوچتا ہوں ارشد صاحب کو بتاؤں، جو دوست ہیں، اور سائییکالوجسٹ اور ہپناتھیراپسٹ بھی، اور پوچھوں کیا
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انگریز ہندوستان آئے تھے تو انھیں ہمیں کچھ دینے کے لیے آنا چاہیے تھا۔ یہ وہ بنیادی قضیہ
ابھی انھی دنوں امریکہ کے چوتھے صدر، جیمز اے میڈیسن (1751-1836) کا ایک قول/اقتباس دیکھنے کو ملا۔ میڈیسن امریکہ کے ان تین اہم بانیوں میں
یہاں یہ معاملہ زیرِ بحث نہیں کہ دانشور کی تعریف کیا ہے۔ یا یہ کہ دانشور کسے کہا جائے۔ ان معاملات سے تفصیلی بحث میری
اگر آپ اپنی بات پر قائم ہیں، میں اپنی بات پر قائم ہوں، تو بات آگے کیسے بڑھے گی؟ کچھ عرصے سے یہ معاملہ مجھے
Both measures are largely Ashraafist. Serving or saving the Riyasati Ashrafiya and Ashrafiya from the tax-burden. The GST (General Sales Tax) may be delayed and/or
نوٹ: اس تحریر میں وضع کیا گیا نظریہ دو چیزوں سے مشروط ہے۔ اول، صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات، اور، دوم، سیاست میں کسی خارجی
’’ساتواں ایاز میلو‘‘ حیدرآباد، سندھ میں منعقد ہوا۔ ڈان (23 دسمبر، 2021ء) کے مطابق، میلے میں دانشوروں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان
اس سے پہلے کہ جو بات کہنی ہے، وہ کہی جائے، چند باتیں، جو اس تحریر پر اعتراض کی صورت میں وارد ہو سکتی ہیں،
سیاسی بیانیے سیاست کا رخ متیعن کرتے ہیں۔ جیسا کہ چند سال قبل مسلم لیگ (ن) کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ سامنے آیا۔
عزیز دوست علی سلمان نے فیس پر نعیم بلوچ صاحب کی ایک پوسٹ کی طرف متوجہ (ٹیگ) کیا۔ یہ پوسٹ بیشتر عملی مذہب اور اخلاقیات
پاکستان میں اہلِ دانش، عقلِ سلیم (کامن سینس) کو خیرباد کہتے جا رہے ہیں۔ یا خیرباد کہہ چکے ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بیشتر
نہر پر چل رہی ہے پن چکی دُھن کی پوری ہے کام کی پکی (اسماعیل میرٹھی) کلچر کی چکی رکتی نہیں۔ چلتی رہتی ہے۔ جب
آج اخبار میں دیکھا، موسیقار وزیر افضل کل بروز منگل (7 ستمبر2021 ) 87 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ شکوہ نہ کر، گلہ
اپریل 1986 میں بے نظیر بھٹو کئی برس کی خودجلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آئیں۔ لاہور میں ان کا شاندار استقبال ہوا۔ وہ ٹرک پر
اس معاملے کو جذباتی وابستگی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ معاملہ جذبات ہی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یعنی ایسی سیاسی
جیسے فوجی مداخلت ایک حقیقت ہے، اسی طرح، سیاست دانوں کی حیلہ جوئی بھی ایک حقیقت ہے۔ پاکستان کے شہریوں کے اصل ’’مجرم‘‘ سیاست دان
اگر آپ سنجیدہ سیاسی تحریر پڑھنا چاہتے ہیں، تو خورشید ندیم کے کالم پڑھا کیجیے۔ بگڑتے ہوئے حالات کے بارے میں ان کی تشویش بھی
In recent years free trade agreements have become fashionable. Thus, when two or more countries reach an agreement to allow free trade (because it is
۔ پہلی بات یہ کہ میرے پیشِ نظر پاکستان ہے۔ ۔ اب آ جاتے ہیں، سوال کی طرف۔ ۔ سوال بظاہر سادہ معلوم ہوتا ہے۔
۔ بایاں بازو، دایاں بازو، لبرل، اور جو بھی ایسے ہی دوسرے انداز ہائے نظر موجود ہیں، یہ سب کے سب اب تک انگریزوں کو
ایک پریشان خیالی تو یہ ہے کہ پاکستانی فسطائیت، فسطائیت نہیں، اور یہ کہ، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں، فسطائیت تو ہٹلر کی فسطائیت
’آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے۔‘ ’آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘ ’آپ کو ایسا نہیں لکھنا چاہیے۔‘ ’آپ کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔‘ یا
ـ نواز شریف (پاکستان مسلم لیگ ن) کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا مقدمہ، قضیہ یا نعرہ گمراہ کن تھا۔ ـ ویسے اب تو یہ
یہ 2018ء کے عام انتخابات سے دو تین ماہ پہلے کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے یہ میرے لیے انتہائی مایوسی اور بے بسی کا
ایک چیز یہ ہوتی ہے کہ کوئی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے اپنے فائدے کے لیے۔ چلیں اس نے خود کوئی فائدہ تو اٹھایا۔ مگر
کیا اس ملک کے لوگوں کے کوئی اصول ہیں، کوئی اقدار ہیں، جن پر وہ یقین رکھتے ہوں؟ مگر یہ سوال ہی غلط ہے؟ لوگ
کچھ نظریات ایسے بھی ہیں، جن کا زور اس بات پر ہے کہ عمران خان کی حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے۔
کرپشن بھی کئی دوسری چیزوں کی طرح قدیم سے موجود چلی آ رہی ہے۔ آج کی دنیا میں یہ جس طرح پھیلی ہوئی ہے، اس
۔ یہ تحریر پاکستان میں نسائیت کی تحریک کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ غلط، صحیح، سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ۔ نسائیت کی
خود پارسائیت کا مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف میں پارسا اور ٹھیک ہوں، اور باقی سب گنہ گار اور غلط ہیں۔ یہ ایک
ریاستی معیشت اور شہری معیشت: علمِ معاشیات پر ریاستی تسلط کی مختصر روداد Published by Prime Institute, Islamabad www.PrimeInstitute.org Oder form: https://docs.google.com/forms/d/1L1Ah8LZt9ue-DOYbVhT3bc1ziSF0y6kyxJsoQ6BgkSo/viewform?edit_requested=true&gxids=7628
نواز شریف آج جن طاقتوں کے خلاف کھڑے ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہ ماضی میں ان کے ساتھ ساز باز کرتے رہے ہیں۔
شہباز شریف پر جو مقدمات قائم ہوئے ہیں، ان سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ نہ ہی ان سے میری کوئی ذاتی مخاصمت ہے۔ ان سب
عثمان بزدار کو ہٹانا یا نہ ہٹانا کوئی مسئلہ نہیں۔ اکثر صحافی، تجزیہ کار اور حزبِ اختلاف کے سیاست دان اسی پر متوجہ ہیں۔ جبکہ
اپنی مایوسی کو اگر کسی چیز سے تشبیہ دینا چاہوں، تو ایک ایسی ترکیب اور ایک ایسی عمارت کا ڈھانچہ ذہن میں آتا ہے، جسے
[نوٹ: یہ مضمون 9 دسمبر، 2019 کو لکھا گیا، اور 12 دسمبر 2019 کو نیا دور ڈاٹ ٹی وی میں شائع ہوا۔] ’’جاسوسی کے ذریعے
یہ تحریر آپ کے 2 اپریل کے ولاگ کے جواب میں ہے۔ صرف دو باتیں آپ کے سامنے رکھنا مقصود ہے۔ مسابقتی (کمپیٹیشن) کمیشن نے
نوٹ: یہ تحریر 7 دسمبر 2019 کو ’’نیادور‘‘ پر شائع ہوئی۔ https://urdu.nayadaur.tv/25638/ پاکستانی فسطائیت کا چہرہ دو خطوط سے عبارت ہے، حماقت اور خودراستی۔ لیکن اندر
اس تحریر کا مقصد امریکہ ـ طالبان معاہدے کا جائزہ لینا یا اس پر کسی قسم کو کوئی تبصرہ کرنا نہیں۔ اس تحریر کا مقصد
اکثر اوقات سوچ کے سانچے، افراد کی ذہنی ساخت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ قدیمی آبادیوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ خود کو نہ
یہاں کچھ ٹویٹس منسلک کی جا رہی ہیں: ہر حکومت جس طرح قرضے لیتی ہے، اس سے یہ باور ہوتا ہے کہ انھیں کوئی پروا
آج کل یوں معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے بائیں بازو کی سیاست کا احیا ہو رہا ہے۔ منظور پشتین کی گرفتاری پر مختلف شہروں
Copyright © 2021 Pak Political Economy. All Rights Reserved