لوگوں کو الزام دینا، ذمے دار ٹھہرانا بالکل غلط ہے

کیا اس ملک کے لوگوں کے کوئی اصول ہیں، کوئی اقدار ہیں، جن پر وہ یقین رکھتے ہوں؟

How to fix responsibility

مگر یہ سوال ہی غلط ہے؟

لوگ تو غیرمنظم ہوتے ہیں۔ ان کی طاقت بکھری ہوتی ہے، منتشر ہوتی ہے، وہ تو ایک کلرک کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔

جب وہ منظم ہو جاتے ہیں، جیسے کہ شہری تنظیموں کی صورت میں، سیاسی جماعتوں کی صورت میں، تو ان کی طاقت بھی منظم ہو جاتی ہے۔ اور وہ طاقت ور بن جاتے ہیں۔

پھر یہ کہ لوگ بیشتر عملیت پسند یا عمل پسند ہوتے ہیں۔ یعنی وہ، جیسے بھی حالات ہوں، بڑی تیزی سے ان میں زندہ رہنا سیکھ لیتے ہیں۔ جو نہیں سیکھتے یا نہیں سیکھ پاتے، یا نہیں سیکھ سکتے، یا سیکھنا نہیں چاہتے، وہ ایک مفہوم میں ناکام زندگی گزارتے ہیں۔ یا خود کشی کر لیتے ہیں۔

ہاں، مگر کچھ لوگ ان حالات کو تبدیل کرنے کا بیٹرا …

نظریۂ ضرورت یا آئین کی بالادستی

کچھ نظریات ایسے بھی ہیں، جن کا زور اس بات پر ہے کہ عمران خان کی حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے۔
Doctrine of Necessity or Constitutionalism
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یوں لوگوں کا تبدیلی کا شوق پورا ہو جائے۔
ایک اور دلیل یہ ہے، اور یہ سادہ لوح لوگوں کی طرف سے ہے، کہ حکومت کے لیے مدت پوری کرنا ضروری ہے، اور آئین کا تقاضا بھی ہے۔
یعنی حامی اور مخالف دونوں جانب سے مختلف طرح کی دلیلیں موجود ہیں، اس نظریے کے حق میں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کسی غیرآئینی حکومت کو کیوں قبول کیا جائے، مدت پوری کرنے کی بات تو علاحدہ رہی۔
جو لوگ پاکستان کی عدلیہ کو نظریۂ ضرورت کا طعنہ دیتےہیں، تو کیا یہ لوگ خود نظریۂ ضرورت کے حامی نہیں بنے ہوئے۔ یعنی وہ بھی نہ صرف ایک غیرآئینی حکومت کو قبول کر رہے ہیں، بلکہ چاہتے ہیں کہ یہ مدت

کرپشن (بدعنوانی) کے خلاف سامنے آنے والے مختلف ردِ عمل

کرپشن بھی کئی دوسری چیزوں کی طرح قدیم سے موجود چلی آ رہی ہے۔

آج کی دنیا میں یہ جس طرح پھیلی ہوئی ہے، اس سے یہ باور ہوتا ہے، جیسے کہ اسے قبول کر لیا گیا ہو۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اسے کبھی قبول نہیں کیا گیا۔

کہنے سے مراد یہ ہے کہ کرپشن نظام کا حصہ بن گئی، لازمی حصہ، اور اسے اس نظام کو چلانے والوں نے قبول بھی کر لیا۔

لیکن جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے، انھوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ وہ تو نظام اور کرپشن کو قبول کرنے والوں، یعنی کرپشن کے نظام کو چلانے والوں کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اس نظام کے سامنے بے بس ہیں۔ جو اس نظام کو بدلنے کا نعرہ لگاتے ہیں اور اس نام سے سیاست کا ڈول ڈالتے ہیں، وہ بھی اسی کرپشن کے نظام کا حصہ ہیں۔ تو لوگ مجبور و …

نسائیت کی تحریک ۔ ایک تجزیہ

۔ یہ تحریر پاکستان میں نسائیت کی تحریک کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ غلط، صحیح، سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

March

۔ نسائیت کی تحریک ملک میں گذشتہ 30۔ 35 برس سے موجود ہے۔

۔ یہ تحریک موجود ہے۔ ختم نہیں ہوئی۔ نہ بکھری۔ نہ منتشر ہوئی۔

۔ بلکہ مضبوط ہوئی ہے۔ مستحکم ہوئی ہے۔ پھیلی ہے۔

۔ اس کی ایک شکل بنی ہے۔ منظم شکل۔ یعنی یہ متعدد تنظیموں میں متشکل ہوئی ہے۔

۔ قبل ازیں یہ چند ایک تنظیموں کی صورت میں منظم تھی۔ جیسے کہ وومین ایکشن فورم۔

۔ جہاں تک مطالبات کا تعلق ہے، تو اس ضمن میں بھی یہ صاف اور واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ ملاحظہ کیجیے اس کے مطالبات کا چارٹر۔

۔ اس تحریک پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ غیرملکی فنڈز پر انحصار کرتی ہے۔ یہ کسی بھی تحریک کو جانچنے کا ایک گمراہ کن طریقہ ہے۔ …

خود پارسائیت ۔ پاکستانی فسطائیت کا جوہر

خود پارسائیت کا مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف میں پارسا اور ٹھیک ہوں، اور باقی سب گنہ گار اور غلط ہیں۔ یہ ایک نہایت تباہ کن رجحان ہے۔ اس کا بڑا شاخسانہ یہ ہے  کہ دوسروں کی رائے کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ لہٰذا، فسطائی، اپنے علاوہ دوسرے لوگوں سے رائے کی آزادی کا حق چھین لیتے ہیں۔

ویسے تو خودپارسائیت کا یہ فسطائی رجحان پاکستان میں شروع سے موجود تھا۔ مگر سیاست میں اس کا غلبہ تحریکِ انصاف سے خاص ہے۔

یہی رجحان ہے، جو عمران خان اور یوں تحریکِ انصاف میں ابتدا سے جاری و ساری تھا۔ اور اسی رجحان کی شناخت کے سبب میں نے 2012 ہی میں تحریکِ انصاف کی سیاسی حقیقت کو کھول کر بیان کر دیا تھا (دیکھیں میری کتاب: سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست، جولائی 2012)۔ یعنی یہ جماعت اگر کسی طرح اقتدار میں آ بھی گئی، تو کارکردگی نہیں دکھا …

نواز شریف کو لوگوں سے معافی تو لازماً مانگنی چاہیے

نواز شریف آج جن طاقتوں کے خلاف کھڑے ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہ ماضی میں ان کے ساتھ ساز باز کرتے رہے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ملوث بھی رہے ہیں۔

لیکن اس چیز سے درگزر کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ دنیا بھر میں سمجھا جاتا ہے، یہی طاقتیں پاکستان میں نہ صرف بیشتر حکومتیں بنانے اور ہٹانے کے پیچھے کارفرما ہوتی ہیں، بلکہ اِس یا اُس سیاسی جماعت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے بھی برسرِ پیکار رہتی ہیں، تو ایسے میں کوئی سیاسی جماعت اگر اپنی بقا کے لیے پیچھے ہٹتی ہے، اور ان طاقتوں کے ساتھ مصالحت کرتی ہے، تو اس کے لیے اتنی گنجائش نکالنا مناسب ہو گا۔ لیکن اس سے زیادہ قطعاً نہیں۔

مثلاً غالباً ذوالفقارعلی بھٹو کو موقع نہیں ملا، ورنہ وہ بھی جلاوطن ہو سکتے تھے، اور اپنی جان بچا سکتے تھے۔

مثلاً نواز شریف جینرل مشرف کے …

شہباز شریف کو یہ ایک سزا تو ضرور ملنی چاہیے

شہباز شریف پر جو مقدمات قائم ہوئے ہیں، ان سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔

نہ ہی ان سے میری کوئی ذاتی مخاصمت ہے۔

ان سب باتوں سے جدا، انھوں نے جو ’’جرم‘‘ کیا ہے، وہ کوئی چھوٹا ’’جرم‘‘ نہیں۔

یہ بہت بڑا ’’جرم‘‘ ہے، جس نے لاکھوں شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

انھوں نے ترقی کے نام پر لاہور اور کچھ دوسرے شہروں میں جو تباہی پھیلائی ہے، وہ تو ایک خوفناک کہانی ہے۔

اصل تباہی جو انھوں نے پھیلائی اور جس نے شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا، اس کی طرف نہ میڈیا کی توجہ ہے، نہ تجزیہ کاروں کی، نہ کالم نگاروں کی، اور نہ ہی خود ان شہریوں کی، جن کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

لاہور میں جو سڑکیں تعمیر کی گئیں، وہاں فٹ پاتھ تباہ و برباد اور ختم کر دیے گئے۔

دوسرے شہروں میں جہاں جہاں شہباز شریف کی ’’نظرِ …

کیا عثمان بزدار کو ہٹانا اصل مسئلہ ہے؟

عثمان بزدار کو ہٹانا یا نہ ہٹانا کوئی مسئلہ نہیں۔ اکثر صحافی، تجزیہ کار اور حزبِ اختلاف کے سیاست دان اسی پر متوجہ ہیں۔ جبکہ جو اصل مسئلہ ہے، اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔

اصل مسئلہ ہے 2018 کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر کی جانے والی دھاندلی۔ یہ معاملہ بھرپور توجہ چاہتا ہے۔ خاص طور پر حزبِ اختلاف کو اس معاملے پر سیاست کرنی چاہیے۔ اگر وہ اس معاملے پر توجہ نہیں دیتی، تو اس کا مطلب ہے وہ صرف اقتداری سیاست (پاور پالیٹکس) میں دلچسپی رکھتی ہے۔ جمہوری سیاست میں نہیں۔

اور جب تک سیاست دان جمہوری سیاست نہیں کریں گے، جمہوریت لوگوں کے لیے بے سود اور بے معنی رہے گی!…

مایوسی کی نیند

اپنی مایوسی کو اگر کسی چیز سے تشبیہ دینا چاہوں، تو ایک ایسی ترکیب اور ایک ایسی عمارت کا ڈھانچہ ذہن میں آتا ہے، جسے گنبدِ بے در کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک ایسا گول کمرہ، جس میں کوئی دروازہ نہیں، کوئی کھڑکی نہیں، کوئی روشن دان نہیں۔ اور نہ ہی کوئی درز یا جھری کہ روشنی اندر دم مار سکے۔

آپ کہیں گے یہ تو گھٹن والا ماحول ہوا، مایوسی تو نہیں۔ ہاں، مگر بعض اوقات اور بعض صورتوں میں مایوسی بھی اسی شکل میں سامنے آ سکتی ہے اور آتی ہے۔

پاکستان میں سیاسی اعتبار سے جو مایوسی ہر سو چھائی ہوئی ہے، وہ اسی قسم کی مایوسی ہے۔

میں نے کہا، سیاسی اعتبار سے۔ یعنی سماجی اعتبار سے جیسی بھی مایوسی ہو، وہ اس قسم کی نہیں، جیسی کہ سیاسی مایوسی ہے۔

سماجی مایوسی کا تعلق خاصی حد تک اخلاقی بحران سے ہے۔

مگر سیاسی مایوسی گنبدِ …

سپریم کورٹ اور سنسنی خیزی

[نوٹ: یہ مضمون 9 دسمبر، 2019 کو لکھا گیا، اور 12 دسمبر 2019 کو نیا دور ڈاٹ ٹی وی میں شائع ہوا۔]

’’جاسوسی کے ذریعے کسی شہری کے وقار کو مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ انٹیلی جینس حکام کس قانونی اختیار کے تحت ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں۔‘‘

’’یہ انسانی وقار کا معاملہ ہے، آرٹیکل 14 کے تحت کسی شہری کے وقار کو مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔‘‘

یہ سپریم کورٹ کے معزز ججوں کی آراء ہیں، جن کا اظہار انھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے کی شنوائی کے دوران کیا۔ یہ آراء 4 دسمبر کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔

انھیں پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ اس معاملے میں عدالت کچھ نہ کچھ مثبت قدم ضرور اٹھائے گی۔ دیکھیں اس مقدمے کے اختتام پر کیا نتیجہ یا فیصلہ سامنے آتا ہے۔

لیکن ماضی اس بات کا گواہ …

محترم رؤف کلاسرا ۔۔۔ آپ کا ہدف غلط ہے۔

یہ تحریر آپ کے 2 اپریل کے ولاگ کے جواب میں ہے۔

صرف دو باتیں آپ کے سامنے رکھنا مقصود ہے۔

مسابقتی (کمپیٹیشن) کمیشن نے مختلف کمپنیوں کو جرمانے کیے ہیں، جن کا ذکر آپ نے کسی قدر تفصیل سے کیا، اور انھوں نے عدالتوں سے سٹے آرڈر لے لیے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے ایک کمپنی کو سٹے آرڈر لیے ہوئے دس برس کا عرصہ گزر گیا، اور جرمانہ ادا نہیں ہوا۔ اس سے یہ باور ہوتا ہے کہ عدالتیں جرمانوں کی عدم ادائیگی میں ان کمپنیوں کے ساتھ ملوث ہیں۔ ممکن ہے ہوں بھی۔ اور اگر مسابقتی کمیشن اور حکومتیں دونوں اب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں، تو یہ بھی جرمانے کی عدم ادائیگی میں ان کمپنیوں کے ساتھ ملوث ہیں۔ یعنی یہ ریاستی اشرافیہ کا ایک کھیل ہے۔ یہ سب آئین، قانون اور اداروں کے آئینی اور قانونی مینڈیٹ کی خلاف ورزی …

کورونا وائرس وبا: کیا ہونے جا رہا ہے؟

دو باتیں بہت صاف ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ کورونا سے کسی ایک فرد کی جان کو نہیں، بلکہ ہر فرد کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔

دوسری بات یہ کہ انسان اور انسانی معاشرے کا مستقبل بعید عام حالات میں بھی غیریقینی ہوا کرتا ہے، کیونکہ ایک محفوظ معاشرہ تعمیر کرنے کے باوجود انسان جس دنیا میں زندہ ہے، اس میں کام کرنے والی لاتعداد قوتوں پر اس کا اختیار بےحد کمزور ہے۔ وہ ایک حد تک سیلاب، زلزلوں، اور دوسری آفات کا مقابلہ کر سکتا ہے، ابھی اس سے بڑھ کر نہیں۔ مگر جہاں تک ان دیکھی آفات کا تعلق ہے، جیسے کہ نظامِ شمسی سے کسی آفت کا ظہور، وغیرہ، تو اس کے بارے میں انسان کا علم قریب قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔

وباؤں کا مقابلہ انسان پہلے بھی کرتا رہا ہے، اور آج تو زیادہ بہتر انداز میں کر سکتا ہے۔

یہ چیز …

فسطائیت اپنے پنجے گاڑ رہی ہے

نوٹ: یہ تحریر 7 دسمبر 2019 کو ’’نیادور‘‘ پر شائع ہوئی۔

https://urdu.nayadaur.tv/25638/

پاکستانی فسطائیت کا چہرہ دو خطوط سے عبارت ہے، حماقت اور خودراستی۔ لیکن اندر سے یہ اپنے گنوں میں پوری ہے، یعنی اصلاً فسطائیت ہے۔ جتنا پاکستانی فسطائیت، فسطائی ہو سکتی ہے۔

میں نے حماقت کو اس لیے پہلے رکھا ہے کہ خودراستی کا دعویٰ ایک احمقانہ دعویٰ ہے۔ کیونکہ ہر سچ کو کچھ کہ کچھ معیارات پر پرکھا جانا ضروری ہے، اور انسانی دعوے کامل نہیں ہو سکتے۔

حماقت اس کی کرداری خصوصیت نہیں۔ یہ اس کے اس دعوے کی پیداوار ہے کہ یہ ’’عقلِ کل‘‘ ہے۔ لہٰذا، حماقتیں خود وارد ہوتی رہتی ہیں۔

اب اگر پاکستانی فسطائیت عقلِ کل ہے، تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ باقی سب ’’عقلِ خام‘‘ ہیں، یعنی جاہلِ مطلق ہیں۔ پھر یہ بھی کہ آج تک جو بھی ہوا، وہ کرپشن (بدعنوانی) کی کمائی اور ثمر تھا اور غلط …

امریکہ ـ طالبان معاہدہ اور ’’رنگا رنگ‘‘ ردِ عمل

اس تحریر کا مقصد امریکہ ـ طالبان معاہدے کا جائزہ لینا یا اس پر کسی قسم کو کوئی تبصرہ کرنا نہیں۔

اس تحریر کا مقصد اس معاہدے پر جو ردِ عمل سامنے آ رہے ہیں، ان کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا ہے۔

پہلی بات یہ کہ  وہی پرانی حکایت دہرائی جا رہی ہے، جس میں ایک کسان اور اس کا بیٹا اپنا گدھا بیچنے کے لیے منڈی لے جاتے ہیں۔ باپ بیٹے کو گدھے پر بٹھا دیتا ہے، اور خود پیدل چلتا ہے۔ لوگوں کو اس پر اعتراض ہے کہ دیکھو کیسا بیٹا ہے باپ پیدل چل رہا ہے، اور یہ خود گدھے پر سوار ہے۔ اب باپ گدھے پر سوار ہو جاتا ہے، اور بیٹا پیدل چلتا ہے۔ لوگ اس پر بھی معترض ہیں کہ دیکھو کیسا باپ ہے، خود گدھے پر سوار ہے اور بیٹا پیدل چل رہا ہے۔ اب دونوں گدھے پر سوار ہو جاتے …

کیا ہر روشن دماغ اور سوچنے سمجھنے والا شخص کسی نہ کسی کا ایجینٹ ہے؟

اکثر اوقات سوچ کے سانچے، افراد کی ذہنی ساخت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

قدیمی آبادیوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ خود کو نہ صرف طبیعی سرحدوں کے اندر بلکہ اپنی اساطیری اور روایاتی سرحدوں کے اندر بھی بند رکھیں۔ یہ بقا کی میکانکیت تھی۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا، تو باہر سے ہر قسم کے ’’دشمن‘‘ (حیوانات اور اجنبی گروہ) انھیں نقصان پہنچا سکتے تھے، یا ختم کر سکتے تھے۔

مگر قدیمی خانہ بدوش آبادیاں خود کو کسی طرح کی سرحدوں میں بند نہیں کرتی تھیں۔ ان کی بقا کی میکانکیت کسی نوع کی سرحدوں کی مرہونِ منت نہیں تھی۔ جب یہ لوگ کہیں آباد ہوتے، تو ان کی بقا کی میکانکیت بھی تبدیل جاتی۔

مراد یہ کہ طبیعی، اساطیری اور روایاتی سرحدوں نے قدیمی آبادیوں کے افراد کے فکری سانچوں کو ان کی ذہنی ساخت میں تبدیل کر دیا۔

قدیمی افراد کی یہ ذہنی ’’ساختیں‘‘ بالخصوص ان …